زید اور عمر دونوں ساتھ میں عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے اور سنت پڑھنے کے بعد وتر کی نماز ایک ساتھ پڑھ رہے تھے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد زید نے عمر سے کہاآپ نے دو ہی رکعت وتر پڑھی ہے، عمر کا کہنا ہے آپ وتر پڑھ رہے تھے؟ یا میری رکعت گن رہے تھے؟ اگر میری رکعت گن رہے تھے تو آپ کی نماز بھی کہاں ہوئی؟
ان دونوں کے درمیان یہ بھی جھگڑا ہو گیا کہ امام اگر پہلی رکعت میں سجدہ سے اٹھتے وقت بیٹھ جائے اور پھر یاد آئے کہ ابھی تو ایک ہی رکعت ہوئی پھر بلند آواز سے تکبیر کہے بغیر کھڑے ہو جائیں اور مقتدی حضرات بھی دیکھا دیکھی قیام کے لیے کھڑے ہوجائیں تو کسی بھی مقتدی کی نماز نہیں ہوگی ؛کیوں کہ یہ نماز پڑھتے وقت امام کو دیکھ رہے تھے جس وجہ سے نماز نہیں ہوگی، ایسی صورت میں مذکورہ دونوں مسئلے کی حقیقت کیا ہے؟ آیا شریعت میں ایسا ہی ہے یا پھر کچھ اور حکم ہے؟
1:صورتِ مسئولہ میں اگر عمر کو زید کے خبر دینے پر کہ اس نے وتر تین رکعت کے بجائے دو رکعت ادا کی ہیں ، یاد آگیا اور اس کو زید کی بات پر یقین ہے تو عمر پر اس وتر کا اعادہ لازم ہوگا، اور اگر عمر کو شک ہے تو اس صورت میں اگر زید عادل (سچا اور دین کے اَحکام کی رعایت رکھنے والا) نہیں ہے تو وتر کو لوٹانا ضروری نہیں ہے، اور اگر زید عادل ہےتو احتیاطًا اعادہ کرلینا بہتر ہے، اور اگر دو عادل شخص اس کی خبر دے دیں تو اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا۔
باقی اگر زید کو نماز پڑھتے ہوئے معلوم ہوگیا کہ عمر نے ایک رکعت ادا کی ہے تو محض اس وجہ سے اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، بلکہ اس کی نماز شرعاً ادا شمار ہوگی۔
2: صورتِ مسئولہ میں مقتدیوں کے امام کو دیکھنے کی وجہ سے ان کی نماز فاسد نہیں ہوگی؛ اس لیے نماز میں امام کو دیکھ لینا نماز کو فاسد نہیں کرتا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"[فروع] أخبره عدل بأنه ما صلى أربعا وشك في صدقه وكذبه أعاد احتياطا. ولو اختلف الإمام والقوم فلو الإمام على يقين لم يعد وإلا أعاد بقولهم.
(قوله: أخبره عدل إلخ) تقدم أن الشك خارج الصلاة لا يعتبر، وأن هذه الصورة مستثناة؛ وقيد بالعدل، إذ لو أخبره عدلان لزمه الأخذ بقولهما ولا يعتبر شكه، وإن لم يكن المخبر عدلا لا يقبل قوله إمداد. وظاهر قوله أعاد احتياطا الوجوب لكن في التتارخانية إذا شك الإمام فأخبره عدلان يجب الأخذ بقولهما لأنه لو أخبره عدل يستحب الأخذ بقوله اهـ فتأمل... [تتمة] شك الإمام فلحظ إلى القوم ليعلم بهم إن قاموا قام وإلا قعد لا بأس به ولا سهو عليه."
(كتاب الصلاة، باب سجود السهو، 2 / 94، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503101428
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن