بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے اندر دعا میں ایسی چیز مانگنا جو بندوں سے مانگنا ممکن ہو مفسد نماز ہے


سوال

ہم نے سنا ہے اگرجوتےکاتسمہ ٹوٹ جائےتووہ بھی اللہ سے مانگو،اور دوسری جگہ حکم ہے کہ  نمازمیں ایسی چیز مانگنا جو بندوں سے مانگنا ممکن ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ  کا فرمان ہے کہ" ہماری نماز میں لوگوں کے کلام کی گنجائش نہیں ہے"لہذا نماز کے اندر کلام الناس اور مشابہ کلام الناس سے بچنا ضروری ہے،اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے،اورنماز کے اندر آپ ﷺ سے دعا مانگنا بھی ثابت ہے ،اور وہ دعائیں جو قرآن اور حدیث کے علاوہ ہے وہ کلام الناس ہے،چناں چہ فقہاء نے یہ  قاعدہ ذکر کیا ہے کہ  "جو چیز بندوں سے مانگنا ممکن ہو وہ کلام الناس ہےاور جو بندوں سے مانگنا نا ممکن ہو تو وہ کلام الناس نہیں ہے"،پس  اسی قاعدے کے تحت نماز میں ایسی چیز مانگنا جو بندوں سے مانگنا ممکن ہو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے،البتہ خارجِ نماز ہر چیز چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اللہ سے مانگنی چاہیے ؛ کیوں کہ وہ ہی ہمارا مشکل کشا اور حاجت روا ہے۔

خلاصہ یہ کہ بہت سی چیزیں ایسی ہے جو نماز کے اندر ناجائز اور نماز کے باہر جائز ہے، لہذا خارجِ نماز کو داخلِ نماز پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔

نیز یہ کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو ترجیح دینی چاہیے کیوں کہ اللہ تعالی ہی ہر چیز پر قادر ہے، باقی زندہ آدمی سے مانگنا بھی منع نہیں ہے۔

قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے:

 "وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ." ﴿غافر: ٦٠﴾

عمدۃ القاری میں ہے:

"عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أن رسول الله كان يدعو في الصلاة اللهم إني أعوذبك من عذاب القبر وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال وأعوذ بك من فتنة المحيا وفتنة الممات اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم."

(كتاب الصلاة، أبواب صفة الصلاة. باب الدعاء قبل السلام، ج:6، ص:115-116، ط:دار إحياء التراث العربي)

وفيه ايضاً:

"ثم إعلم أن العلماء اختلفوا فيما يدعو به الإنسان في صلاته. فعند أبي حنيفة وأحمد: لا يجوز الدعاء إلا بالأدعية المأثورة أو الموافقة للقرآن العظيم، لقوله صلى الله عليه وسلم: (‌إن ‌صلاتنا ‌هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن)."

(كتاب الصلاة، أبواب صفة الصلاة. باب الدعاء قبل السلام، ج:6، ص:118، ط:دار إحياء التراث العربي)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (لا كلام الناس) أي لا يدعو بكلام الناس وقال الشافعي يجوز أن يدعو في الصلاة بكل ما جاز خارجها من الدنيا فيقول اللهم ارزقني دراهم وجارية صفتها كذا وخلص فلانا من السجن وأهلك فلانا؛ لما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - كان يدعو على رعل وذكوان وعلى قبائل من العرب» وروي عن ابن عمر أنه قال إني لأدعو في صلاتي حتى بشعير حماري وملح بيتي ولنا قوله - عليه الصلاة والسلام - «إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس وإنما هي التسبيح والتهليل وقراءة القرآن» رواه مسلم وما رواه محمول على الابتداء حين كان الكلام مباحا فيها؛ ولأن ما ذكرنا محرم وما ذكره مبيح والمحرم مقدم على المبيح؛ ولأن ما روينا قول وما رواه فعل والقول مقدم على الفعل لما عرف في موضعه، وأما ابن عمر فيحتمل أنه ما بلغه هذا الحديث أو تأوله...ثم الأصل فيه أن كل ما لا ‌يستحيل سؤاله ‌من ‌العباد فهو كلامهم وما ‌يستحيل فليس بكلامهم."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل الشروع في الصلاة وبيان إحرامها وأحوالها، ج:1، ص:124، ط:دار الكتاب الإسلامي)

العنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"(ولا يدعو بما يشبه كلام الناس) تحرزا عن الفساد، ولهذا يأتي بالمأثور المحفوظ، وما لا ‌يستحيل سؤاله ‌من ‌العباد كقوله اللهم زوجني فلانة يشبه كلامهم وما ‌يستحيل كقوله اللهم اغفر لي ليس من كلامهم، وقوله اللهم ارزقني من قبيل الأول هو الصحيح لاستعمالها فيما بين العباد، يقال رزق الأمير الجيش."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:319، ط:دار الفكر لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں