بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز كے عمل قليل وكثير كے بارے ميں چند وضاحتيں


سوال

آپ کے فتوی نمبر 144506100787 میں عمل کثیر کی ایک تعریف یہ لکھی ہے کہ: "دوسرا قول یہ ہے  کہ جو کام عام طور پر دو ہاتھوں سے کیا جاتا ہے، مثلاً عمامہ باندھنا، ازار بند باندھنا وغیرہ، یہ تمام کام عمل کثیر شمار ہوتے ہیں، اگر یہ کام ایک ہاتھ سے کرے تب بھی یہ عملِ کثیر کہلائے گا اور جو کام عام طور پر ایک ہاتھ سے کیا جاتا ہے وہ عملِ قلیل شمار ہوتا ہے، اگر یہ کام دو ہاتھوں سے کرے تب بھی عملِ قلیل ہی کہلائے گا۔"

سوال یہ ہے کہ نماز میں اگر پینٹ تھوری سی نیچے ہو جائے تو اس کو ایک ہاتھ سے اوپر کرنے سے نماز فاسد ہو جائے گی؟ کیوں کہ عام طور پر پینٹ دونوں ہاتھوں سے اوپر کی جاتی ہے۔

2۔ نماز میں چھینک آنے پر منہ پر ایک ہاتھ بھی نہیں رکھ سکتے؟ کیوں کہ عام طور پر چھینک آنے پر منہ پر دونوں ہاتھ رکھے جاتے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں پینٹ اٹھانادو ہاتھ سے نہیں هوتا ہے، بلکہ ایک ہاتھ سے اٹھایا جاتا ہے،البتہ جس وقت پہناجاتا دو ہاتھوں کا استعمال کیا جاتا ہے، تو نماز کے دوران ایک ہاتھ سے اٹھانا اس کا درست ہے، دوسرا اس کے اٹھانے سے اس وجہ سے  نماز فاسد نہیں ہوتی کہ پینٹ نیچے ہونے سے بسا اوقات اتنی نیچے آسکتی ہے جس سے نماز فاسد ہوجائے، تو ایک ہاتھ سے اٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

2)اسی طرح نماز میں  چھینک آنے کی صورت میں منہ پر ہاتھ لگا لینا چاہیے؛  تاکہ تھوک وغیرہ کے قطرات زمین یا کسی مصلی کے بدن پر نہ جاسکیں،ایک ہاتھ لگانے سے نماز فاسد نہیں ہوگی، نیز چھینک کے وقت ایک ہاتھ  بھی رکھا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ محولہ بالا فتوے میں    عمل کثیر سے متعلق مفتی بہ قول  یہ لکھا ہے: 

"مفتیٰ بہ اور راجح قول یہ ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا کہ  دور سے دیکھنے والے کو یقین ہو جائے  کہ یہ کام کرنے والا نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يفسدها (كل عمل كثير) ليس من أعمالها ولا لإصلاحها، وفيه أقوال خمسة أصحها (ما لايشك) بسببه (الناظر) من بعيد (في فاعله أنه ليس فيها) وإن شك أنه فيها أم لا فقليل.

 (قوله: ليس من أعمالها) احتراز عما لو زاد ركوعا أو سجودا مثلا فإنه عمل كثير غير مفسد لكونه منها غير أنه يرفض لأن هذا سبيل ما دون الركعة ط قلت: والظاهر الاستغناء عن هذا القيد على تعريف العمل الكثير بما ذكره المصنف تأمل (قوله ولا لإصلاحها) خرج به الوضوء والمشي لسبق الحدث فإنهما لا يفسدانها ط. قلت: وينبغي أن يزاد ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحية أو العقرب بعمل كثير على أحد القولين كما يأتي، إلا أن يقال إنه لإصلاحها لأن تركه قد يؤدى إلى إفسادها تأمل (قوله: وفيه أقوال خمسة أصحها ما لا يشك إلخ) صححه في البدائع، وتابعه الزيلعي والولوالجي. وفي المحيط أنه الأحسن. وقال الصدر الشهيد: إنه الصواب. وفي الخانية والخلاصة: إنه اختيار العامة. وقال في المحيط وغيره: رواه الثلجي عن أصحابنا حلية.القول الثاني أن ما يعمل عادة باليدين كثير وإن عمل بواحدة كالتعميم وشد السراويل وما عمل بواحدة قليل وإن عمل بهما كحل السراويل ولبس القلنسوة ونزعها إلا إذا تكرر ثلاثا متوالية وضعفه في البحر بأنه قاصر عن إفادة ما لا يعمل باليد كالمضغ والتقبيل. الثالث الحركات الثلاث المتوالية كثير وإلا فقليل الرابع ما يكون مقصودا للفاعل بأن يفرد له مجلسا على حدة. قال في التتارخانية: وهذا القائل: يستدل بامرأة صلت فلمسها زوجها أو قبلها بشهوة أو مص صبي ثديها وخرج اللبن: تفسد صلاتها.الخامس التفويض إلى رأي المصلي، فإن استكثره فكثير وإلا فقليل قال القهستاني: وهو شامل للكل وأقرب إلى قول أبي حنيفة، فإنه لم يقدر في مثله بل يفوض إلى رأي المبتلى. اهـ. قال في شرح المنية: ولكنه غير مضبوط، وتفويض مثله إلى رأي العوام مما لا ينبغي، وأكثر الفروع أو جميعها مفرع على الأولين. والظاهر أن ثانيهما ليس خارجا عن الأول، لأن ما يقام باليدين عادة يغلب ظن الناظر أنه ليس في الصلاة، وكذا قول من اعتبر التكرار ثلاثا متوالية فإنه يغلب الظن بذلك، فلذا اختاره جمهور المشايخ. اهـ.(قوله: ما لا يشك إلخ) أي عمل لا يشك أي بل يظن ظنا غالبا شرح المنية وما بمعنى عمل، والضمير في بسببه عائد إليه والناظر فاعل يشك، والمراد به من ليس له علم بشروع المصلي بالصلاة كما في الحلية والبحر. وفي قول الشارح من بعيد تبعا للبدائع والنهر إشارة إليه لأن القريب لا يخفى عليه الحال عادة فافهم (قوله: وإن شك) أي اشتبه عليه وتردد."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:624، ط: سعيد)

فتاوي هنديه ميں هے:

"ظهر من ‌أنفه ‌ذنين في الصلاة فمسحه أولى من أن يقطر منه على الأرض. كذا في القنية."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:501، ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں