بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے بعد اجتماعی ذکرکرنا


سوال

 نماز کے بعد اجتماعی طور پر آیت الکرسی پڑھنا کیسا ہے ؟

جواب

مسئولہ صورت  میں اجتماعی طور پر آیت الکرسی پڑھنے سے مراد اگر   بالجہر  ہے تو واضح رہےکہ   قرآن اور حدیث کی متعدد نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ ذکر میں اصل اخفاء یعنی آہستگی سے ذکر کرنا ہے۔ البتہ ذکر بالجہر یعنی اونچی آواز میں ذکر کرنا بھی چند شرائط کے ساتھ جائز ہے، مثلا: (1) ذکر بالجہر کو اصل اور بذاتِ خود مقصود نہ سمجھا جائے، بلکہ ایک علاج اور تدبیر سمجھا جائے۔ (2) اس کو لازم نہ سمجھا جائے اور اس میں شریک نہ ہونے والوں پر نکیر نہ کی جائے۔ (3) جہرِ مفرِط یعنی آواز بہت اونچی نہ ہو۔ (4) اس کی وجہ سے نمازیوں کی نماز یا تلاوت کرنے والوں کی تلاوت میں خلل واقع نہ ہو (5) ریاء وغیرہ کا اندیشہ نہ ہو۔   ( معارف القرآن:3/579-576۔ 4/169-166)

صورتِ مسئولہ میں  مندرجہ بالا شرائط موجود نہ ہوں یا کوئی اور شرعی خرابی موجود ہو تو یہ اجتماعی طور پر آیت الکرسی پڑھنا  شرعا درست نہیں ہوگا ۔ اور اگر یہ تمام شرائط موجود ہوں تو فی نفسہ اس کی گنجائش ہوگی، لیکن چونکہ مسجد میں یہ اندیشہ بہر حال رہتا ہے کہ انفرادی عبادت کرنے والوں کی عبادت مثلا نمازیوں کی نماز اور تلاوت کرنے والوں کی تلاوت میں خلل واقع ہو، یا عام لوگ اس کو لازم سمجھنے لگیں؛ اس لیے مناسب ہےکہ  انفرادی ذکر ہی کریں اور آیت الکرسی بھی آہستگی کے ساتھ پڑھیں ۔

قرآن کریم میں ہے :

"{ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ}    [الأعراف: 55]

{وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ }    [الأعراف: 205]"

فتاوی شامی میں ہے: 

’’مطلب في رفع الصوت بالذكر(قوله: و رفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارةً قال: إنّه حرام، وتارةً قال: إنّه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو: "«وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص و الأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر و الإخفاء بالقراءة و لايعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي»؛ لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل؛ لأنه أكثر عملًا و لتعدي فائدته إلى السامعين، و يوقظ قلب الذاكر فيجمع همّه إلى الفكر، و يصرف سمعه إليه، و يطرد النوم، و يزيد النشاط. اهـ. ملخصًا، و تمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفًا و خلفًا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد و غيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ ...إلخ.‘‘

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا،ج :1/ص: 660)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101764

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں