بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کا وقت گزرنے کے بعد مقتدی کا خبر دینا کہ نماز کی رکعات زیادہ ہوئی تھیں تو کیا حکم ہے؟


سوال

میں نے ظہر کی نماز پڑھائی، جماعت میں 50 کے قریب مقتدی تھے، ایک شخص نے کہا  وہ بھی عصرکی نماز کےبعد کہ  میرے سے ایک رکعت نماز گزرگئی تھی دوسری رکعت میں شامل ہوا تھا، پھر  بھی میری چار رکعتیں جماعت سے ہوگئیں۔  اس کامطلب آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھائی تھی،  جماعت میں شامل دیگر کسی فرد نے اس کا اظہار تک نہیں کیا،  ایک دو بندوں سے پوچھا  تو انہوں نے  شک کااظہار کیا، تسلی بخش بات نہیں کی،  مجھے خود کو اس پر شک ہے،  اب نماز ہوگئی ہے یا نہیں؟  اگر اب منادی کروں تب بھی فائدہ نہیں ہے؛ کیوں کہ لوگ تبدیل ہوتے رہتےہیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص جس نے یہ خبر دی ہے  کہ آپ نے ظہر کی نماز پانچ رکعات پڑھادی ہیں، عادل  (سچا اور  دین کے اَحکام کی رعایت رکھنے والا) ہے   اور آپ کو  اور دوسرے مقتدیوں کو شک ہے تو اس صورت میں احتیاطًا  اس  نماز کا اعادہ کرلینا بہتر ہے،  اور اگر مذكوره شخص عادل نه هو تو نماز كا لوٹانا ضروری نہیں ہوگا، اور اگر دو عادل شخص اس کی خبر دے دیں تو اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا۔

اس کے لیے آپ اعلان کردیں  کہ فلاں دن  کی ظہر کی نماز جنہوں نے پڑھی ہے اس کو احتیاطًا  لوٹالیا جائے، جن لوگوں تک خبر پہنچ جائے  وہ نماز دہرالیں اور جن کو اطلاع نہ  مل سکے ان کے حق میں یہ معاف ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 92):

’’ (وإذا شك) في صلاته (من لم يكن ذلك) أي الشك (عادة له) وقيل من لم يشك في صلاة قط بعد بلوغه

(قوله :  وإذا شك) هو تساوي الأمرين بحر وقدمناه (قوله في صلاته) قال في فتح القدير: قيد به لأنه لو شك بعد الفراغ منها أو بعد ما قعد قدر التشهد لا يعتبر إلا إذا وقع في التعيين فقط، بأن تذكر بعد الفراغ أنه ترك فرضا وشك في تعينه، قالوا: يسجد سجدة ثم يقعد ثم يصلي ركعة بسجدتين ثم يقعد ثم يسجد للسهو لاحتمال أن المتروك الركوع فيكون السجود لغوا بدونه، فلا بد من ركعة بسجدتين. اهـ. قال في البحر: ولا حاجة إلى هذا الاستثناء لأن الكلام في الشك بعد الفراغ وهذا تيقن ترك ركن غير أنه شك في تعيينه، نعم يستثنى ما في الخلاصة: لو أخبره عدل بعد السلام أنك صليت الظهر ثلاثا وشك في صدقه يعيد احتياطا لأن الشك في صدقه شك في الصلاة ‘‘

وفيه أيضًا (2 / 94):

’’ [فروع] أخبره عدل بأنه ما صلى أربعا وشك في صدقه وكذبه أعاد احتياطا. ولو اختلف الإمام والقوم فلو الإمام على يقين لم يعد وإلا أعاد بقولهم. 

(قوله : أخبره عدل إلخ) تقدم أن الشك خارج الصلاة لا يعتبر، وأن هذه الصورة مستثناة؛ وقيد بالعدل، إذ لو أخبره عدلان لزمه الأخذ بقولهما ولا يعتبر شكه، وإن لم يكن المخبر عدلا لا يقبل قوله إمداد. وظاهر قوله أعاد احتياطا الوجوب لكن في التتارخانية إذا شك الإمام فأخبره عدلان يجب الأخذ بقولهما لأنه لو أخبره عدل يستحب الأخذ بقوله اهـ فتأمل.

(قوله :  ولو اختلف الإمام والقوم) أي وقع الاختلاف بينهم وبينه، كأن قالوا صليت ثلاثا وقال بل أربعا أما لو اختلف القوم والإمام مع فريق منهم ولو واحدا أخذ بقول الإمام؛ ولو تيقن واحد بالتمام وواحد بالنقص وشك الإمام والقوم فالإعادة على المتيقن بالنقص فقط؛ ولو تيقن الإمام بالنقص لزمهم الإعادة إلا من تيقن منهم بالتمام، ولو تيقن واحد بالنقص وشك الإمام والقوم، فإن كان في الوقت فالأولى أن يعيدوا احتياطا ولزمت لو المخبر بالنقص عدلان، من الخلاصة والفتح.‘‘

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200594

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں