بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے علاوہ بھی ٹوپی پہننا مستحب کے درجے میں اور لباس کا حصہ ہے


سوال

کیا ٹوپی پہننا ہر وقت لازمی ہے یا صرف نماز میں؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومی احوال میں عمامہ یا ٹوپی کے ذریعہ سر مبارک کو ڈھانپا کرتے تھے؛ اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہنناسننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے۔  صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کایہی معمول تھا۔ کبھی کبھار ننگے سرہوجانا گناہ نہیں ،  البتہ مستقل طور پرننگے سررہنا شرعاً ناپسندیدہ اور خلافِ ادب ہے، کیونکہ  سر کا ڈھانپنا لباس کا حصہ رہا ہے، اور ننگے سر رہنے کو معمول اور فیشن بنالینااسلامی تہذیب کے بالکل خلاف ہے،اگر کوئی غیروں کی مشابہت میں ننگے سررہتاہے تووہ گناہ گار ہوگا۔

کاہلی، سستی  اور  لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز  پڑھنا مکروہ ہے اور اس  سے ثواب میں کمی ہوتی ہے ، البتہ اگر کبھی غلطی سے ٹوپی ساتھ نہ ہو اور فوری طور پر کسی جگہ  سے  میسر بھی نہ ہوسکتی ہو تو اس صورت میں ننگے سر نماز پڑھنے کی وجہ سے کراہت نہیں ہوگی۔

مفتی رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"سر  برہنہ  ہونا احرام  میں  ثابت ہے ، سوائے احرام کے بھی احیاناً ہوگئے ہیں ، نہ کہ دائماً چلتے پھرتے تھے"۔

(فتاوی رشیدیہ ،ص:590)

فتح الباری شرح بخاری میں ہے:

"بَاب السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ، وَقَالَ الْحَسَنُ: كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِي كُمِّه ............وهذا الأثر وصله عبد الرزاق عن هشام بن حسان عن الحسن...هكذا رواه ابن أبي شيبة من طريق هشام".

(فتح الباري: ج:2، ص:238، ط:دارالمعرفة بیروت)

زاد المعاد في هدي خير العباد میں ہے:

"كانت له عمامة تسمى: السحاب كساها علياً، وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة. وكان يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة".

(فصل:في ملابسه صلى الله عليه وسلم،ص:45، ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر، ولو سقطت قلنسوته فإعادتها أفضل،  إلا إذا احتاجت لتكوير أو عمل كثير"................

"(قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة، وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر، شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز. مطلب في الخشوع، (قوله: ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لايفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك؛ لأن مبنى الصلاة على الخشوع. اهـ".

 (‌‌کتاب الصلوۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع مشى المصلي مستقبل القبلة هل تفسد صلاته، ج:1، ص:641، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں