بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز كے دوران حالت قیام میں درود شریف پڑھنے کا حکم


سوال

ایک شخص دورکعات نفل صلاۃ حاجت پڑھتاہے اورہر رکعت میں قیام کی حالت میں  سو مرتبہ درود پڑھتا ہےتو  کیا یہ عمل درست ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ   نماز میں کوئی واجب چھوٹ جائے، یانماز کے واجبات اور فرائض میں سے کسی واجب یا فرض کی ادائیگی میں تاخیر ہوجائے،  یاکسی فرض کو پہلے ادا کردے (یعنی ارکان کی ترتیب بدل دے، جو کہ واجب ہے) یا تکرار کے ساتھ اداکرے یاکسی واجب کو تبدیل کردے  ان صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے،سجدہ سہو کی ادائیگی سے اس نقصان کی تلافی ہوجاتی ہے،اور اگر جان بوچھ کر ایسا فعل کیا جس سے سجدہ سہوواجب ہو تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں قیام کی حالت میں اگر ثناء سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو اس سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا،کیوں کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے محل ثناء و ذکر ہے اور درود شریف بھی ذکر میں شامل ہے،لہذا سورۃ فاتحہ سے پہلے درود شریف پڑھنے سے سجدہ سہوواجب نہیں ہوتا ،البتہ بہتر یہ ہے کہ نمازکو مسنون طریقہ پر ادا کرے،لیکن سورۃ فاتحہ اور سورۃ کے درمیان یا سورۃ کے بعد رکوع سے پہلے  درود شریف پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے ،کیوں کہ ایسے کرنے سے  درود شریف پڑھنے سے واجب کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے،اور سجدہ سہوسے نماز کے نقصان کی تلافی تب ہی ہوتی ہے جب سجدہ سہو کو واجب کرنے والا فعل بھولے سے ہوجائے اور مذکورہ صورت میں مذکورہ شخص قصداً اور ارادۃً قیام کی حالت میں درود شریف پڑھ رہا ہے ،لہذا اگرقیام کی حالت میں  سورۃ فاتحہ اور سورۃ کے درمیان یا سورۃ کے بعد رکوع سے پہلے درود شریف پڑھنے سے  نماز فاسد ہوجائے گی،اور یہ حکم فرض ،واجب،سنن مؤکدہ اور نفل میں برابر ہے۔

نیز صلوۃ التسبیح والی تسبیحات جو دورانِ نماز پڑھی جاتی ہیں وہ اپنے اسی مخصوص طریقہ کے ساتھ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہیں، اسی وجہ سےنماز کے دوران اُن تسبیحات کے پڑھنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولايجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت، وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي."

(الباب الثانى عشرفى سجود السهو،  ج:1، ص:126، ط:مكتبه رشيدية)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولو تشهد في قيامه أو ركوعه أو سجوده فلا سهو عليه، لأنه ثناء وهذه المواضع محل الثناء وعن محمد لو تشهد في قيامه قبل قراءة الفاتحة فلا سهو عليه وبعدها يلزمه سجود السهو، وهو الأصح، لأن بعد الفاتحة محل قراءة السورة فإذا تشهد فيه فقد أخر الواجب وقبلها محل الثناء."

(كتاب الصلوة ،باب سجود السهو،ج: 1، ص: 93، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ولو ‌تشهد ‌في ‌قيامه قبل قراءة الفاتحة فلا سهو عليه وبعدها يلزمه سجود السهو وهو الأصح، لأن بعد الفاتحة محل قراءة السورة فإذا تشهد فيه فقد أخر الواجب وقبلها محل الثناء، كذا في التبيين ولو تشهد في الأخريين لا يلزمه السهو، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الصلوة، الباب الثاني عشر في سجود السهو،ج: 1، ص: 127، ط: رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وحكم السهو في الفرض والنفل سواء، كذا في المحيط."

(كتاب الصلوة ،الباب الثاني عشر في سجود السهو، ج: 1، ص: 126، ط: رشيدية)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وحكم السهو في صلاة الفرض والنفل سوى حديث ثوبان على ما مر، من غير فصل، ولأن الفرض والنفل إنما يفترقان في وصف الفريضة والنفلية دون الأركان والشروط."

(كتاب الصلوة ،الفصل السابع عشر في سجود السهو، ج: 1، ص: 500، ط: دار الكتب العلمية)

۔

عمدۃ القاری  شرح صحیح البخاری میں ہے:

"إعلم أن العلماء اختلفوا فيما يدعو به الإنسان في صلاته. فعند أبي حنيفة وأحمد: لا يجوز الدعاء إلا بالأدعية المأثورة أو الموافقة للقرآن العظيم، لقوله صلى الله عليه وسلم: (إن صلاتنا هذه لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن) . رواه مسلم."

(كتاب الصلوة،ج: 6، ص: 118، ط: دار الفكر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144404100801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں