بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے دوران قرآن کی کسی ایک آیت کو مکرر پڑھنے کا حکم


سوال

نماز کے دوران  ایک آیت مثلاً "وَاعْفُ عَنَّا "کو  مکرر پڑھنا کیسا ہے ؟

جواب

 قرآن مجید کی کسی ایک آیت کو نماز کی ایک رکعت میں  قصداً مکرر پڑھنامکروہ ہے،چاہے بطورِ تلاوت پڑھے یا دعاوغیرہ کی نیت سے پڑھے،البتہ یہ حکم فرض نمازوں کا ہے،نفل نماز کی ایک رکعت میں کسی ایک  آیت کو مکرر پڑھنا مکروہ نہیں ہے،چاہے قصداً پڑھی جاوے،تلاوت کی نیت سے ہویا پھر دعا وغیرہ کی نیت سے ہوبہر صورت جائز ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

ایک رکعت میں ایک آیت یا سورت کو مکرر پڑھنا

سوال:کیا نماز میں ایک رکعت میں ایک سورت یا ایک آیت مکرر پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ یعنی اگر کوئی سورت یا آیت ایک ہی رکعت میں مکرر سہ کرر پڑھی جاوے تو کیا نماز میں حرج واقع ہوگا ؟

جواب: نماز ہو جاتی ہے، لیکن فرض نماز میں قصداً ایسا کرنا مکروہ ہے، نفل میں مکروہ نہیں۔

(کتاب الصلاۃ، باب القرأۃ، ج:7، ص:95، ط:ادارۃ الفاروق)

تفسیر مظہری میں ہے:

"لا يجوز الدعاء والتعوذ للسامع إذا قرأ القارى فى القران ذكر الجنة والنار لما ذكرنا من قول الكلبي، قال ابن همام : إن الله وعده بالرحمة إذا استمع حيث قال: "فاستمعوا و أنصتوا لعلكم ترحمون" ووعده حتم و إجابة دعاء المتشاغل عنه به غير مجزوم به، وكذا الإمام ۔ (مسألة) وكذا المنفرد لا يشتغل بغير القراءة في الفرض، وفي النفل يسأل الجنة، ويتعوذ من النار عند ذكرهما، ويتفكر في آية المثل لحديث حذيفة، قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه واله وسلم صلوة الليل، فما مر بآية فيها ذكر الجنة إلا وقف وسأل الله الجنة، وما مر بآية فيها ذكر النار إلا وقف وتعوذ من النار."

(سورة الأعراف، ج:3، ص:452، ط:مكتبة الرشيدية)

المحیط البرھانی میں ہے:

"وإذا ‌كرر ‌آية واحدة مراراً، فإن كان في التطوع الذى يصلي وحده، فذلك غير مكروه، فقد ثبت عندنا عن جماعة من السلف أنهم كانوا يُحيون ليلتهم بآية العذاب، أو آية الرحمة، أو آية الرجاء، أو آية الخوف. وإن كان ذلك في صلاة الفريضة فهو مكروه؛ لأنه لم ينقل إلينا عن واحد من السلف أنه فعل ذلك، وهذا كلّه في حالة الإختيار، وأما في حالة العذر والنسيان من إنسان، فلا بأس به."

(كتاب الصلاة،الفصل الثاني في الفرائض والواجبات والسنن، ج:2، ص:49، ط: مكتبة الرشد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا كرر آية واحدة مرارا، فإن كان في التطوع الذى يصلي وحده، فذلك غير مكروه. وإن كان في الصلاة المفروضة، فهو مكروه في حالة الإختيار، وأما في حالة العذر والنسيان، فلا بأس، هكذا في المحيط."

(كتاب الصلاة،الباب السابع، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره، ج:1، ص:107، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں