بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز جمعہ کی رکعات کی تعداد


سوال

 احناف کے نزدیک  نماز جمعہ کی کل کتنی رکعتیں ہوتی ہیں ؟  کتنی رکعت سنت مؤکدہ ہے،کتنی رکعت نفل ہے؟کب کتنی رکعت پڑھی جاتی ہے ؟

جواب

نمازِ جمعہ   کی  کل بارہ رکعتیں ہیں، چار سنت مؤکدہ فرض سے پہلے، دو رکعت فرض، چار رکعت سنت مؤکدہ فرض کے بعد اور  اس کے بعد  راجح قول کے مطابق   دو رکعت سنت   غیر مؤکدہ مزید  پڑھی جاتی ہیں ،اور اس کے بعد دو نفل اگر کوئی پڑھنا  چاہے ،تو پڑھ سکتا ہے ۔عوام الناس ان نوافل کے ساتھ جمعہ کی  چودہ رکعات  شمار کرتے ہیں ۔

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما السنة قبل الجمعة وبعدها فقد ذكر في الأصل: وأربع قبل الجمعة، وأربع بعدها، وكذا ذكر الكرخي، وذكر الطحاوي عن أبي يوسف أنه قال: يصلي بعدها ستاً، وقيل: هو مذهب علي - رضي الله عنه -. وما ذكرنا أنه كان يصلي أربعاً مذهب ابن مسعود، وذكر محمد في كتاب الصوم أن المعتكف يمكث في المسجد الجامع مقدار ما يصلي أربع ركعات، أو ست ركعات أما الأربع قبل الجمعة؛ فلما روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتطوع قبل الجمعة بأربع ركعات»؛ ولأن الجمعة نظير الظهر، ثم التطوع قبل الظهر أربع ركعات كذا قبلها.

وأما بعد الجمعة فوجه قول أبي يوسف إن فيما قلنا جمعًا بين قول النبي صلى الله عليه وسلم وبين فعله؛ فإنه روي «أنه أمر بالأربع بعد الجمعة»، وروي أنه «صلى ركعتين بعد الجمعة»، فجمعنا بين قوله وفعله، قال أبو يوسف: ينبغي أن يصلي أربعاً، ثم ركعتين كذا روي عن علي - رضي الله عنه - كي لايصير متطوعاً بعد صلاة الفرض بمثلها، وجه ظاهر الرواية ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «من كان مصلياً بعد الجمعة فليصل أربعاً». وما روي من فعله صلى الله عليه وسلم فليس فيه ما يدل على المواظبة، ونحن لانمنع من يصلي بعدها كم شاء، غير أنا نقول: السنة بعدها أربع ركعات لا غير؛ لما روينا".

(کتاب الصلاۃ ،فصل ما یکرہ من سنن الصلاۃ ،ج:1،ص: 285،ط:دار الكتب العلمية)

طحطاوي علی مراقي الفلاح میں ہے :

"ومنہا أربع بعدہا؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي بعد الجمعة أربع رکعات یسلم في آخرہن وفي الطحطاوي: ثم عند أبي یوسف یصلي أربعاً ثم اثنتین، کذا في الحدادي."

(كتاب الصلاة،فصل في بیان النوافل ،ص:389،ط:دار الكتب العلمية)

 فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

’’ظاہر روایت میں جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ سنت مؤکدہ ہیں ، اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک چھ رکعتیں ہیں؛ لہذا جمعہ کے بعد چار رکعتیں ایک سلام سے سنت مؤکدہ سمجھ کر پڑھے، اور اس کے بعد دور کعتیں سنت غیر مؤکدہ سمجھ کر پڑھی جائیں، جو چار پر اکتفا کرتا ہے وہ قابلِ ملامت نہیں ہے.‘‘

( باب الجمعہ و العیدین،ج:6،ص:111،ط:دار الاشاعت)

امداد الفتاوی میں ہے :

’’(سوال )جمعہ کی پہلی سنتیں مؤکدہ ہیں یا نہیں؟ اور بعد کی سنتوں میں چار مؤکدہ ہیں یا دو یا سب ؟
(الجواب)جمعہ کی پہلی سنتیں مؤکدہ ہیں ، کذا في الدر المختار اور بعد کی چار مؤکدہ ہیں کذا في الدر المختار۔‘‘

(باب صلوۃ الجمعۃ والعیدین،ج:1،ص:533،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں