بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں ہنسنے کا حکم


سوال

نماز میں ہنسنے کا کیاحکم ہے؟

جواب

نماز کی حالت میں  ہنسنا گناہ ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے دربار اقدس کے آداب کے  خلاف ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے، اگر نماز کے دوران ہنسی میں صرف دانت کھل گئے یعنی صرف مسکرایا، آواز بالکل نہیں نکلی تو وضو اور نماز دونوں باقی ہیں یعنی نہ نماز فاسد ہوئی اور نہ وضو ٹوٹا، اور اگر اتنی آواز نکلی کہ خود  سن لی تو نماز ٹوٹ گئی، وضو نہیں ٹوٹا، اور اگر اتنی زور سے ہنسا کہ  اہل مجلس نے آواز سن لی تو وضو بھی ٹوٹ جائے گا اور نماز بھی فاسد ہوجائے گی، بشرطیکہ بالغ ہو، نابالغ کا وضو نماز میں  ہنسنے سے نہیں ٹوٹتا۔

 فتاوی عالمگیری میں ہے:  

"(ومنها القهقهة) وحد القهقهة أن يكون مسموعا له ولجيرانه، والضحك أن يكون مسموعا له ولا يكون مسموعا لجيرانه، والتبسم أن لا يكون مسموعا له ولا لجيرانه كذا في الذخيرة. القهقهة في كل صلاة فيها ركوع وسجود تنقض الصلاة والوضوء عندنا، كذا في المحيط، سواء كانت عمدا أو نسيانا كذا في الخلاصة، ولا تنقض الطهارة خارج الصلاة، والضحك يبطل الصلاة ولا يبطل الطهارة، والتبسم لا يبطل الصلاة ولا الطهارة، ولو قهقه في سجدة التلاوة أو في صلاة الجنازة تبطل ما كان فيها ولا تنقض الطهارة، كذا في فتاوى قاضي خان.والقهقهة من الصبي في حال الصلاة لا تنقض الوضوء كذا في المحيط."

(الفتاوى الهندية: كتاب الطهارة، الباب الأول في الوضوء، الفصل الأول في فرائض الوضوء 1/  12، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں