بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز تہجد کا سنت یا نفل نماز ہونے کے حوالہ سے تحقیق


سوال

تہجد کی نماز سنت ہے یا نفل ؟برائے مہربانی جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں دیجیے کیوں کہ میں نے کتاب میں پڑھا ہے کہ بعض نے اسے نفل کہاہے اور بعض نے سنت لیکن بہتر یہ ہے کی تہجد کی نماز سنت ہے۔

جواب

نماز تہجد کے بارے میں بعض علماءنے سنتِ مؤکدہ ہونے کا قول کیا ہے،  مگر اکثر علماء کے نزدیک نماز تہجد  امت کے حق میں مستحب یعنی نفل ہے ۔

امداد الاحکام میں ہے:

’’نماز تہجد سنت مؤکدہ ہے یا مستحب؟

سوال :ایک لڑکے کانام حبیب اللہ ہے، مالابدمنہ اردو پڑھتاتھا، ایک جگہ لکھا ہے ، کہ نماز تہجد سنتِ مؤکدہ ہے، اسی درمیان میں ایک حافظ صاحب تشریف لائے، اور کہنے لگے،کہ سنتِ مؤکدہ نہیں بلکہ نفل ہے، اور تم کو معلوم نہیں، لڑکے نے کہا کہ جناب حافظ صاحب!ہم نے تنبیہ الغافلین میں بھی یہی پڑھا ہے، کہ نماز تہجد سنتِ مؤکدہ ہے، اور مالابدمنہ میں بھی موجود ہے، بس جناب حافظ صاحب بہت غصہ ہوکر بولے، کہ تم کو کیا معلوم، اور کون ہمارے میں اتنا مسئلہ جانتاہے،اس بستی میں ؟تو لڑکے نے کہا کہ ہم کو تو بس یہی کتاب بس ہے، تو فوراً حافظ صاحب نےکہا کہ اس کتاب پدوڑی کو نہیں مانتے ۔

الجواب: نماز تہجد کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے،بدلیل مواظبته صلی اللہ علیه وسلم علیها من غیر افتراض علیه،قال فی رد المحتار: ومفادہ اعتماد السنیة فی حقنا لأنه صلی اللہ علیه وسلم واظب علیه بعد نسخ فرضیته. وکذا قال فی الحلیة: الأشبه أنه سنة،(ص:616،ج:1)،اور بعض كے نزديك مستحب هے، وحملوا مواظبته صلى الله عليه وسلم على كونها فريضة،مختصة به،اور اکثر علماء کا قول یہی ہے،کہ امت کے حق میں نماز تہجد مستحب ہے، سنتِ مؤکدہ نہیں ،قال فی مراقي الفلاح،وأکثر المتون علیه ،وندب صلوۃ اللیل خصوصاً آخرہ کما ذکرناہ،اور اس عبد ضعیف کا خیال یہ ہے کہ ابتداءً تو صلوۃ تہجد مستحب ہی ہے، لیکن بعد شروع کردینے کے اور عادی ہوجانے کے اس پر مواظبت کرنا سنت مؤکدہ ہے،ودلیله قوله صلی اللہ علیه وسلم لابن عمر یا عبداللہ لاتکن مثل فلان کان یقوم اللیل ثم ترك، رواہ البخاري،فی کتاب التهجد،چوں کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے، اس لیے  قاضی ثنا ء اللہ صاحب نے جو بڑےمحقق ومحدث عالم ہیں، سنت مؤکدہ ہونے کو اختیار کیاہے...ملخصاً۔‘‘

(کتاب الصلاۃ،ج:1،ص:605،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها(اي المندوبات) صلاة الليل. كذا في البحر الرائق ومنتهى تهجده - عليه السلام - ثمان ركعات وأقله ركعتان. كذا في فتح القدير ناقلا عن المبسوط."

(كتاب الصلاة، الباب التاسع في النوافع، ج:1، ص:112، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"[تنبيه] ظاهر ما مر أن التهجد لا يحصل إلا بالتطوع؛ فلو نام بعد صلاة العشاء ثم قام فصلى فوائت لا يسمى تهجدا وتردد فيه بعض الشافعية.

قلت: والظاهر أن تقييده بالتطوع بناء على الغالب وأنه يحصل بأي صلاة كانت لقوله في الحديث المار «وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل» ثم اعلم أن ذكره صلاة الليل من المندوبات مشى عليه في الحاوي القدسي. وقد تردد المحقق في فتح القدير في كونه سنة أو مندوبا، لأن الأدلة القولية تفيد الندب؛ والمواظبة الفعلية تفيد السنية لأنه - صلى الله عليه وسلم - إذا واظب على تطوع يصير سنة؛ لكن هذا بناء على أنه كان تطوعا في حقه، وهو قول طائفة. وقالت طائفة: كان فرضا عليه فلا تفيد مواظبته عليه السنية في حقنا لكن صريح ما في مسلم وغيره عن عائشة أنه كان فريضة ثم نسخ، هذا خلاصة ما ذكره " ومفاده اعتماد السنية في حقنا لأنه - صلى الله عليه وسلم - واظب عليه بعد نسخ الفرضية، ولذا قال في الحلية: والأشبه أنه سنة."

(كتاب الصلاة، ج:2، ص:25، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502101092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں