1.جنازے سے پہلے جنازے کی نیت بتانے کو سختی سے منع کرنا کیسا ہے، اگر ہر جنازے سے پہلے نیت بتائے تو کیا کوئی حرج ہے؟ اور جو مولوی نیت نہ بتائے جنازہ سے پہلے طعن وتشنیع کرتے ہیں۔
2. میت کے چہرے کو دیکھنے سے سختی سے منع کرنا کیسا ہے جب کہ بلاکسی ثواب کی نیت کے دیکھے؟
1. نماز جنازہ سے پہلے نماز ِ جنازہ کی نیت بتانا فرض ، واجب یا سنت نہیں، اس کو سنت ، مستحب اور ضروری سمجھنا درست نہیں، البتہ اگر کبھی نمازیوں کو علم نہ ہونے کی وجہ سے ضرورتاً نماز سے پہلے نماز جنازہ کا طریقہ یا نیت مختصراً بتادی جائے تو اس میں مضائقہ نہیں۔
باقی نمازِ جنازہ شروع کرنے سے پہلے بطورِ نیت زبان سے کہنے کے لیے مخصوص الفاظ نہیں ہیں، بس دل میں یہ نیت ہو ’’ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس امام کی اقتدا میں( فلاں) میت کی نمازِ جنازہ ادا کررہاہوں‘‘، البتہ اگر دل جمعی كے لیے یہ الفاظ زبان سے كهہ دے تب بھی مضائقہ نہیں۔
2. مرد میت کا چہرہ مردوں اور محارم کے لیے نیز عورت کا عورتوں اور محارم کے لیے دیکھنا جائز ہے ،البتہ اگر چہرہ دیکھنا بھی ہو تو بہتر یہی ہے کہ نماز جنازہ سے پہلے دیکھ لیا جائے ۔ باقی میت کا چہرہ دیکھنے کو لازم سمجھ لینایا اس کو رسم بنالینا یا اس کی وجہ سے تدفین میں غیر ضروری تاخیر کرنا درست نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ومصلي الجنازة ينوي الصلاة لله تعالى، و) ينوي أيضا (الدعاء للميت) لأنه الواجب عليه فيقول أصلي لله داعيا للميت (وإن اشتبه عليه الميت) ذكرا أم أنثى (يقول: نويت أن أصلي مع الإمام على من يصلي عليه) الإمام، وأفاد في الأشباه بحثا أنه لو نوى الميت الذكر فبان أنه أنثى أو عكسه لم يجز، وأنه لا يضر تعيين عدد الموتى إلا إذا بان أنهم أكثر لعدم نية الزائد."
(کتاب الصلاۃ،باب شروط الصلاۃ، 1/ 423، ط: سعید)
حاشیۃ السندی علیٰ سنن ابن ماجۃ میں ہے:
"عن أنس بن مالك قال «لما قبض إبراهيم ابن النبي صلى الله عليه وسلم قال لهم النبي صلى الله عليه وسلم لا تدرجوه في أكفانه حتى أنظر إليه فأتاه فانكب عليه وبكى».
قوله: (لا تدرجوه) من الإدراج أي لا تدخلوه والحديث يدل على أن من يريد النظر فلينظر إليه قبل الإدراج فيؤخذ منه أن النظر بعد ذلك لا يحسن ويحتمل أنه قال ذلك لأن النظر بعده يحتاج إلى مؤنة الكشف."
(كتاب الجنائز،باب ماجاء في النظر الي الميت، 1/ 450 ط: دارالجيل)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"وفي اليتيمة :سألت يوسف بن محمد عمن يرفع الستر عن وجه الميت ليراه؟ قال لا بأس به."
(باب الجنائز، فصل في الكافر يموت وله ولي مسلم، 3/ 78، ط: زکریا)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
’’سوال :قبر کے اندر یا قبر کے باہر قبرستان میں مردہ کا چہرہ دکھلانا کیساہے ؟شرع میں اس کی کیا اصلیت ہے؟
جواب:شرع میں اس کی کوئی اصل نہیں،یہ اہتمام کہ بعض جگہ قبر میں رکھنے کے بعد کفن کھول کرچہرہ دکھلایا جاتا ہے،بے اصل ہے،شریعت میں اس کی کوئی تاکید نہیں،کفن کا بندلگادینے کے بعد چہرہ کھولنا مناسب نہیں،بسا اوقات آثار برزخ شروع ہوجاتے ہیں جن کا اخفاء مقصودہے۔‘‘
(فتاوی محمودیہ ،باب الجنائز ، 9/ 79،ط:جامعہ فاروقیہ)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101429
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن