بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جُمادى الأولى 1446ھ 04 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا اور نماز جنازہ کا مسنون طریقہ


سوال

 نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا ہے یا نہیں؟  براہِ مہر بانی  نماز جنازہ کا سنت کا طریقہ بتائیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ جنازہ کی نماز صورت کے اعتبار سے تو نماز ہے، لیکن حقیقت میں دعا ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز میں قرأت کرنا مشروع نہیں ہے، اسی وجہ سے فقہاء نے جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ قرأت کی نیت سے پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، البتہ سورہ فاتحہ چوں کہ دعا ئیہ مضمون پر مشتمل ہے؛ اس لیے اگر کوئی جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ کو دعا کی نیت سے پڑھے تو یہ جائز ہے۔

 نمازِ  جنازہ ادا کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کو آگے رکھ کر امام اس کے سینے کی سیدھ میں کھڑا ہوجائے، اور جنازہ ادا کرنے والے تمام افراد امام کے پیچھے صف بند ہوجائیں اور اللہ کی رضا کی خاطر اور میت کے لیے دعا کرنے کی غرض سے نمازِ جنازہ کی نیت کریں، پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ ناف کے نیچے باندھ کر ثنا پڑھیں،  پھر دوسری تکبیر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر کہہ  کر درود ابراہیمی پڑھے،پھر  کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر تیسری تکبیر کہہ  کر میت کی مغفرت کے لیے دعا کریں، اس حوالے سے احادیث میں متعدد ادعیہ پڑھنا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، پس ان میں سے جو بھی دعا یاد ہو وہ پڑھیں،پھر چوتھی تکبیر کانوں تک ہاتھ اٹھائے بغیر کہنے کے بعد السلام علیكم و رحمة الله کہتے ہوئے دائیں اور بائیں سلام پھیر دیں، اور دونوں ہاتھوں کو چھوڑدیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا قراءة ولا تشهد فيها) وعين الشافعي الفاتحة في الأولى. وعندنا تجوز بنية الدعاء وتكره بنية القراءة لعدم ثبوتها فيها عنه عليه الصلاة والسلام.

(قوله وعين الشافعي الفاتحة) وبه قال أحمد؛ لأن ابن عباس صلى على جنازة فجهر بالفاتحة، وقال: عمدا فعلت ليعلم أنها سنة. ومذهبنا قول عمر وابنه وعلي وأبي هريرة، وبه قال مالك كما في شرح المنية (قوله بنية الدعاء) والظاهر أنها حينئذ تقوم مقام الثناء على ظاهر الرواية من أنه يسن بعد الأولى التحميد (قوله وتكره بنية القراءة) في البحر عن التجنيس والمحيط: لا يجوز؛ لأنها محل الدعاء دون القراءة اهـ ومثله في الولوالجية والتتارخانية. وظاهره أن الكراهة تحريمية، وقول القنية: لو قرأ فيها الفاتحة جاز أي لو قرأها بنية الدعاء ليوافق ما ذكره غيره، أو أراد بالجواز الصحة، على أن كلام القنية لايعمل به إذا عارضه غيره، فقول الشرنبلالي في رسالته: إنه نص على جواز قراءتها فيه نظر ظاهر لما علمته، وقوله: وقول منلا على القارئ أيضا يستحب قراءتها بنية الدعاء خروجا من خلاف الإمام الشافعي فيه نظر أيضا لأنها لا تصح عنده إلا بنية القرآن، وليس له أن يقرأها بنية القراءة ويرتكب مكروه مذهبه ليراعي مذهب غيره كما مر تقريره أول الكتاب."

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ الجنازۃ،ج:۲،ص:۲۱۳،سعید)

جنازہ کا مسنون طریقہ تفصیل  سے پڑھنے کے لیے ملاحظہ کریں ۔

نمازِ جنازہ اداکرنے اور جنازہ اٹھانے کا مسنون طریقہ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101328

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں