کچھ لو گ نماز جنازہ کو اونچی آواز میں پڑھتے ہیں کیا یہ قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟ اگر نہیں ہے تو اس کی وضاحت فرمادیں ؟
واضح رہےکہ نمازِ جنازہ کی دعائیں آہستہ آواز میں پڑھنا سنت ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، بلند آواز کے ساتھ پڑھنے سے اگرچہ نمازِ جنازہ ادا ہو جاتی ہے لیکن خلافِ سنت ہے ۔
نیز اونچی آواز سے پڑھنے کا ذکر بعض روایات سے ملتاہے ، البتہ جہاں حدیث میں بلند آواز سے پڑھنے کا ذکر ہے تو وہ لوگوں کو سکھانے کی غرض سے تھا ، جیساکہ خود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ انہوں نے جنازہ اونچی آواز سے پڑھنے کے بعد فرمایا میں نے بلند آواز سے اس لیے پڑھا تا کہ تمہیں پتہ چل جائے کہ سورہ ٔ فاتحہ کے مضمون میں دعااورثناء ہے ،اورنمازِ جنازہ میں چوں کہ ثناء سنت ہے ،لهٰذا اگر کوئی دعا اور ثناء کی نیت سے سورۂ فاتحہ پڑھتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ،البتہ عام نمازوں میں سورۂ فاتحہ بحیثیتِ قرأت پڑھی جاتی ہے، جب کہ نمازِ جنازہ میں قرأت نہیں ، اس لیے بحیثتِ قرأت سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔
فتاویٰ شامی میں ہے :
"(ويسلم) بلا دعاء (بعد الرابعة) تسليمتين ناويا الميت مع القوم، ويسر الكل إلا التكبير زيلعي وغيره، لكن في البدائع العمل في زماننا على الجهر بالتسليم۔۔۔(قوله لكن في البدائع إلخ) قد يقال: إن الزيلعي لم يرد دخول التسليم في الكلية المذكورة. والذي في البدائع: ولا يجهر بما يقرأ عقب كل تكبيرة لأنه ذكر، والسنة فيه المخافتة، وهل يرفع صوته بالتسليم؛ لم يتعرض له في ظاهر الرواية. وذكر الحسن بن زياد أنه لا يرفع لأنه للإعلام، ولا حاجة له لأن التسليم مشروع عقب التكبير بلا فصل ولكن العمل في زماننا على خلافه."
(کتاب الصلاۃ ، باب الجنازۃ ، ج : 2 ، ص : 213 ، ط : سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وعن ابن عباس رضي الله عنه أَنَّهُ صَلَّى على جنازة فقرأ فيها بفاتحة الكتاب وجَهَرَ بها، وقال : إنما جهرت؛ لتعلموا أنها سُنَّة ۔۔۔ولا يجهر بما يقرأ عقيب كل تكبيرة لأنه ذكر، والسنة فيه المخافتة. "
(کتاب الصلاۃ ، فصل بيان كيفية الصلاة على الجنازة ، ج : 2 ، ص : 342/44 ، ط : دار الکتب العلمیۃ)
شرح النووی علی مسلم میں ہے:
"قوله (صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جنازة فحفظت من دعائه إلى آخره) فيه إثبات الدعاء في صلاة الجنازة وهو مقصودها ومعظمها وفيه استحباب هذا الدعاء وفيه إشارة إلى الجهر بالدعاء في صلاة الجنازة وقد اتفق أصحابنا على أنه إن صلى عليها بالنهار أسر بالقراءة وإن صلى بالليل ففيه وجهان الصحيح الذي عليه الجمهور يسر والثاني يجهر وأما الدعاء فيسر به بلا خلاف وحينئذ يتأول هذا الحديث على أن قوله حفظت من دعائه أي علمنيه."
(کتاب الجنائز ، ج : 7 ، ص : 30 ، ط : دار احیاء التراث العربی)
نیل الاوطار میں ہے :
"وأخرج أحمد عن " جابر قال ما أباح لنا في دعاء الجنازة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا أبو بكر ولا عمر " وفسر أباح بمعنى قدر. قال الحافظ: والذي وقفت عليه باح بمعنى جهر."
(کتاب الجنائز ، ابواب الصلاۃ علی المیت ، ج : 4 ، ص : 79 ، ط : دار الحدیث ، مصر)
کفایت المفتی میں ہے :
"(سوال)نمازِ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
(جواب 75)حنفیوں کے نزدیک سورہ فاتحہ قراۃ کی نیت سے نمازِجنازہ میں پڑھناجائز نہیں ہاں اگر بہ نیت دعا پڑھی جائے تو درست ہے ۔"
(کتاب الجنائز ، ج : 4 ، ص : 87 ، ط : دارالاشاعت)
احسن الفتاویٰ میں ہے :
"سوال : کیا فرماتاہے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک مسلم کی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے بارے میں کہ اگر نہ پڑھی جائے تو مکمل دلائل کیاہیں؟
نیز صحیح بخاری شریف کی یہ دونوں روایتیں بھی ملحوظ خاطر رہیں:
1۔عن عبادة بن الصامت رضی الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا صلوة لمن لم يقر أبفاتحة الكتاب.
2۔عن ابن عباس رضى الله تعالى عنه انه صلى على جنازة فقر افاتحة الكتاب قال ليعلموا انها سنة ۔ بينوا توجروا.
الجواب باسم ملهم الصواب :نماز جنازہ میں اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور میت کے لئے دعا ہے ، اس لئے اگر سورہ فاتحہ بنیت حمد و ثنا، ودعار پڑھی جائےتو درست ہے، بنیت تلاوت نہ پڑھی جائے،سوال میں مذکورہ روایات میں سے۔۔۔ دوسری روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سورہ فاتحہ پڑھنا منقول ہے، آپ نے سورہ فاتحہ بقصد ثناء و دعا پڑھی تھی، اسی طرح آپ کا سنت فرمانا بھی اسی معنی سے ہے کہ اس میں حمد و ثناء ہے، اور نماز جنازہ میں حمد و ثنا سنت ہے۔ "
(کتاب الصلاۃ ، باب الجنائز ، ج : 4 ، ص : 245 ، ط : سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101156
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن