بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار کون ہے؟ / امام مسجد کی موجودگی میں خشخشی ڈاڑھی والے والی کی امامت


سوال

1- نمازِ  جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ حق کس کو  ہے؟

2-   کیاخشخشی ڈاڑھی والا ولی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے، حال آں کہ امام مسجدموجود ہے؟

جواب

1-  نمازِ  جنازہ کی امامت کے  لیے سب سے مقدم مسلمان حاکمِ وقت ہے اگر موجود ہو، یا اس کا نائب، پھر قاضی، پھر امامِ مسجدِ محلہ اورپھر میت  کا ولی۔  عام حالات میں محلہ کا امام  ولی سے مقدم ہے، البتہ اگراولیائے میت جنہیں  حقِ ولایت حاصل ہے، ان میں سے کوئی اس امام سے ا فضل ہو تو  وہ  نمازِ جنازہ پڑھانے کا زیادہ حق دار ہوگا۔ نیز  محلہ کے امام کا ولی پر حقِ امامت میں مقدم ہونا استحباباً ہے، یعنی اگر باوجود امامِ محلہ  کے ولی نماز پڑھادے تو یہ بھی درست ہے۔

2۔۔  ایسی صورت میں امامِ مسجد کا  حق مقدم ہے،  اور اس کا جنازہ پڑھانا افضل ہے، مذکورہ ولی (خشخشی داڑھی والے) نے اگر نمازِ جنازہ پڑھائی تو اُسے نہیں پڑھانی چاہیے تھی، البتہ جنازہ کا فرض ادا ہوجائے گا، اس کے اعادے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"( ويقدم في الصلاة عليه السلطان ) إن حضر ( أو نائبه ) وهو أمير المصر ( ثم القاضي ) ثم صاحب الشرط ثم خليفته القاضي ( ثم إمام الحي ) فيه إيهام وذلك أن تقديم الولاة واجب، وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي وإلا فالولي أولى، كما في المجتبى و شرح المجمع للمصنف، وفي الدراية: إمام المسجد الجامع أولى من إمام الحي أي مسجد محلته ، نهر، ( ثم الولي ) بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب". (2/219)

تبیین الحقائق میں ہے :

"( فصل ) قال رحمه الله : ( السلطان أحق بصلاته ) نص عليه أبو حنيفة بقوله: الخليفة أولى إن حضر، فإن لم يحضر فإمام المصر، وهو سلطانها؛ لأنه في معنى الخليفة، وبعده القاضي، وبعده صاحب الشرطة، وبعده خليفة الوالي، وبعده خليفة القاضي، وبعد هؤلاء إمام الحي، فإن لم يحضروا فالأقرب من ذوي قرابته، وذكر في الأصل: أن إمام الحي أولى بها، وقال أبو يوسف: ولي الميت أولى بها؛ لأن هذا حكم تعلق بالولاية كالإنكاح. وجه الأول ما روي أن الحسين بن علي لما مات الحسن رضي الله عنهم قدم سعيد بن العاص فقال: لولا السنة لما قدمتك، وكان سعيد والياً في المدينة يومئذٍ، هكذا ذكره في اللباب؛ ولأن في التقدم عليه استخفافاً به، وتعظيمه واجب شرعاً، وما ذكره في الأصل محمول على ما إذا لم يحضر السلطان، ولا من يقوم مقامه". (3/175) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں