بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

نماز استستقاء کے بعد دعا کی کیفیت


سوال

 کیا فر ما تے    ہیں مفتیا ن  کر ام اس    مسئلہ  کے با رے میں کہ نمازِ استسقاء کے بعد جب امام دعا کرے گا، تو یہ بات تو حدیث سے ثابت ہے کہ امام قبلہ رُو کھڑے ہو کر دعا کرے گا، مگر مقتدیوں کے لیے کیا حکم ہے؟ آیا وہ بھی امام کی طرح کھڑے ہو کر دعا پر آمین کہیں گے، یا بیٹھ کر دعا کریں گے؟ ایک مولانا کا کہنا تھا کہ مقتدی بھی کھڑے ہو کر امام کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے دعا پر آمین کہیں، یہی مستحب ہے، کیا ان کی بات درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نمازِ استسقاء کے بعد دعا کی مستحب کیفیت و طریقہ یہ ہے کہ امام قبلہ رُو کھڑے ہو کر دعا کرے، اور مقتدی حضرات قبلہ رُو بیٹھے رہیں اور امام کی دعا پر آمین کہیں، یہی طریقہ فقہاء کرام و شارحین حدیث نے ذکر کیا  ہے،تاہم  اگر کوئی مستحب سمجھے  بغیر  کبھی کھڑے ہوکر امام کے دعا پر آمین کہیں تو  منع نہیں ہے لیکن اس ( یعنی کھڑے ہونے) کو مستحب کہنا درست نہیں ہے۔

 فيض الباري على صحيح البخاري میں ہے:

"1022 - وقال لنا أبو نعيم عن زهير عن أبى إسحاق خرج عبد الله بن يزيد  الأنصارى وخرج معه البراء بن عازب وزيد بن أرقم رضى الله عنهم فاستسقى، فقام بهم على رجليه على غير منبر فاستغفر، ثم صلى ركعتين يجهر بالقراءة ولم يؤذن، ولم يقم. قال أبو إسحاق ورأى عبد الله بن يزيد النبى - صلى الله عليه وسلم -. تحفة 9672 ....هكذا ينبغي مع قعود القوم."

(كتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء قائما، ج:2، ص:500، ط: دار الكتب العلمية)

اعلاء السنن میں ہے:

" يصلى بهم ركعتين يجهر فيهما بالقراءة، ويخطب خطبتين هذا عند محمد). بعد الصلاة ويستقبل الناس بوجهه قائما على الأرض لا على المنبر سيأتي ما فيه). ويفصل بين الخطبتين بجلسة وإن شاء خطب خطبة واحدة هذا عند أبي يوسف). ويدعو الله ويسبحه، ويستغفر للمؤمنين والمؤمنات وهو متكئ قوسا. فإذا مضى صدر من خطبة قلب ردائه وهو ظاهر الحديث وبه أقول كذا في المضمرات. وفي التحفة: وإذا فرغ الإمام من الخطبة يجعل ظهره إلى الناس، ووجهه إلى القبلة، ويقلب رداه، ثم يشتغل بدعاء الاستسقاء قائما والناس قعود مستقبلون وجوههم إلى القبلة في الخطبة والدعاء إلخ انتهى كلام الشيخ. "

(کتاب الصلاة، باب الاستسقاء، ج:8، ص:183، ط:ادارة القرآن و العلوم الاسلامية)

 فتاوی شامی میں ہے:

"وذلك أن يدعو الإمام قائما مستقبل القبلة رافعا يديه، والناس قعود  مستقبلين القبلة  يؤمنون على دعائه باللهم اسقنا غيثا مغيثا هنيئا مريئا مريعا غدقا مجللا سحا طبقا دائما وما أشبهه سرا وجهرا كما في البرهان شرنبلالية وشرح ألفاظه في الإمداد وزاد فيه أدعية أخر."

(كتاب الصلاة، باب الاستسقاء ،ج:2، ص: 184 ، ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا فرغ الإمام من الخطبة يجعل ظهره إلى الناس ووجهه إلى القبلة ويقلب رداءه ثم يشتغل بدعاء الاستسقاء قائما والناس قعود مستقبلون ووجوههم إلى القبلة في الخطبة والدعاء فيدعوا الله تعالى ويستغفر للمؤمنين ويجددون التوبة ويستغفرون ثم عند الدعاء إن رفع يديه نحو السماء فحسن وإن ترك ذلك وأشار بأصبعه السبابة فحسن وكذا الناس يرفعون أيديهم أيضا؛ لأن السنة في الدعاء بسط اليدين، كذا في المضمرات.وينصت القوم لخطبة الاستسقاء، كذا في المحيط ثم المستحب أن يخرج الإمام بالناس ثلاثة أيام متتابعات، كذا في الزاد ولم ينقل أكثر من ذلك ولا يخرج فيه المنبر ويخرجون مشاة في ثياب خلقة أو غسيلة أو مرقعة متذللين خاشعين متواضعين لله عز وجل ناكسي رءوسهم ثم في كل يوم يقدمون الصدقة قبل الخروج ثم يخرجون، كذا في الظهيرية."

(کتاب الصلاة، الباب التاسع عشر في الاستسقاء، ج:1، ص: 154 ، ط: دار الفكر)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:       

"حالة دعائه "رافعا يديه" لما روي عن عمر رضي الله تعالى عنه أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يستسقي عند أحجار الزيت قريبا من الزوراء قائما يدعو رافعا يديه قبل وجهه لا يجاوز بهما رأسه اهـ ولم يزل يجافي في الرفع حتى بدى بياض إبطيه ثم حول إلى الناس ظهره "والناس قعود مستقبلين القبلة  يؤمنون على دعائه " بما ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم ومنه ما نص عليه بأن "يقول اللهم اسقنا غيثا" أي مطرا "مغيثا" بضم أوله أي منقذا من الشدة "هنيئا" بالمد والهمز أي لا ينغصه شيء."

(کتاب الصلاۃ، باب الإستسقاء، ص: 551 ، ط: دار الکتب العلمية)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"ان يدعو الإمام قائما مستقبل القبلة رافعا يديه والناس قعود  مستقبلين القبلة  يؤمنون على دعائه باللهم اسقنا غيثا مغيثا هنيئا مريئا مريعا غدقا عاجلا غير رائث مجللا سحا طبقا دائما وما أشبهه سرا وجهرا."

(کتاب الصلاۃ، باب الإستسقاء، ص: 147، ط: دار إحياء الكتب العربية)

 مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"ويقوم الإمام مستقبل القبلة رافعا يديه والناس قعود مستقبلين القبلة يؤمنون على دعائه يقول: "اللهم اسقنا غيثا مغيثا هنيئا مريئا مريعا غدقا عاجلا غير رائث مجللا سحا طبقا". وما أشبهه سرا أو جهرا."

(کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء، ص: 208 ط:المكتبة العصرية)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

”(جواب ۵۳۳) امساک باراں بھی منجملہ ان مصائب کے ہے جو اعمال شنیعہ اور معاصی کے ارتکاب پر بطور انتقام کے حضرت حق جل شانہ کی طرف سے مخلوق پر نازل ہوتی ہیں ان مصائب کا اصل علاج تو ان گناہوں سے با ز آجانا‘ استغفار تضرع بجالانا صدقہ و خیرات کرنا پھر حضرت حق کی بارگاہ رحمت سے حاجت طلب کرنا ہے بارش طلب کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ پہلے فسق و فجور اور طرح طرح کی معصیتوں سے جن میں مبتلا ہیں‘ توبہ کریں لوگوں کے مظالم اور حقوق ادا کریں اور معاف کرائیں نیکو کاری اور صلاحیت اختیار کریں اور یہ سب کام جلد سے جلد کرکے بارش کی دعامانگنے کے لئے میدان میں نکلیں اور وہاں بھی توبہ و استغفا رتضرع و زاری کے ساتھ کریں اور دو رکعت نماز بھی ادا کریں زینت اور تفاخر کا لباس پہن کر نہ جائیں بلکہ پرانا پھٹا پیوند لگا ہوا لباس پہنیں تو بہتر ہے بوڑھوں اور بچوں کو ساتھ لے جانا بھی بہتر ہے تین روز تک باہر نکلنا اور استغفار و تضرع کرنا نماز ادا کرنا چاہئیے دو رکعتیں پڑھی جائیں پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الاعلیٰ دوسری میں ھل اتک حدیث الغاشیۃ پڑھی جائے پھر امام مختصر سا خطبہ پڑھے‘ جس میں لوگوں کو گناہوں سے توبہ کرنے اور بچنے اور حقوق العباد ادا کرنے کی نصیحت کرے اسی درمیان میں چادر پلٹ لے پھر قبلہ رخ کھڑا ہوجائے لوگ بیٹھے رہیں اور سب مل کر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگیں ہاتھوں کو سر سے اونچا نہ کریں سامنے کو زیادہ پھیلائیں ہتھیلیاں طلب بارش کے موقع پر آسمان کی طرف اور رفع مصیبت کی دعا کے موقع پر زمین کی طرف کریں دعا نہایت خشوع و خضوع اور تضرع کے ساتھ کی جائے اور آنحضرت ﷺ سے جو دعائیں ماثور ہیں وہ افضل ہیں ان میں سے ایک دعا یہ ہے ۔اللھم اسقنا غیثاً مغیثاً نافعاً غیر ضارٍ عا جلاً غیر آجلٍ اللھم اسق عبادك و بھا ئمك وانشر رحمتك و أحی بلدك المیت اللھم أنت اللہ لا إله إلا أنت الغني و نحن الفقراء، أنزل علینا الغیث و اجعل ما أنزلت لنا قوۃو بلا غاً إلیٰ حینٍ، غیر مسلم کو ساتھ نہ لے جائیں۔"محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ دہلی،۱۳ جمادی الثانی ۱۳۵۶؁ھ ۲۱ اگست ۱۹۳۷ء؁.“

(کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء ، ج:3 ، ص:325 ، ط: دار الاشاعت)

عمدۃ الفقہ میں ہے:

”اسی طرح مقتدی بھی اپنے ہاتھ اٹھائیں، اس لیے کہ دعا میں ہاتھ پھیلانا سنت ہے، اور جماعت کے لوگ خطبہ و دعا کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھے رہیں، اور امام کی دعا پر آمین کہتے رہیں۔“

(کتاب الصلاۃ، باب الاستسقاء، ج: 2، ص:472، ط:زوار اکیڈمی)

سنن ابن  ماجہ میں ہے :

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌أفتی ‌بفتيا غير ثبت، فإنما إثمه على من أفتاه."

(باب اجتناب الرأي والقياس، ج:1، ص:20، ط: دار إحياء الكتب العربية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144612101204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں