بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز عید میں خطبہ کی تقدیم وتاخیر کا حکم


سوال

عید کی نماز میں خطبہ نماز سے پہلے دینا چاہیے یا بعد میں؟ اگر نماز کے بعد دیا جائے تو وہ نماز قبول ہوگی  یا نہیں؟ اس کے بارے کیا حکم ہے؟

جواب

عید کے موقع پر سنت یہ ہے کہ: پہلے نمازِ عید پڑھی جائے اس کے بعد  خطبہ دیا جائے، اس پر امت کا اجماع ہے، اس کے خلاف کرنا درست نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق  اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پہلے  عید کی نماز پڑھتے، اور بعد میں خطبہ  دیتے تھے۔

لہٰذا اگر امام نے عید کے موقع پر پہلے نماز پڑھائی اور پھر خطبہ دیا تو اس نے سنت پر عمل کیا۔

اور اگر سائل سے سوال کے الفاظ میں تسامح ہوگیاہے، اور وہ درحقیقت یہ لکھنا چاہ رہا تھا: "اگرخطبہ نماز سے پہلے دے دیا تو نماز قبول ہوگی یا نہیں؟" تو اس کا حکم یہ ہے کہ  اگر کسی امام نے عید کے مسائل سے نا واقف  ہونے یا کسی اور وجہ سے  جمعہ کی طرح  عید کا خطبہ نماز سے پہلے دے دیا تو خطبہ  اور نماز دونوں ادا ہوجائیں گے، اعادہ کی ضرورت نہیں۔ البتہ یہ سنت کے خلاف ہوگا، لہٰذا آئندہ ایسا نہ کیا جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم وأبو بكر وعمر يبدؤون بالصلاة قبل الخطبة في العيد".

( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الصلاۃ، باب الصلاة قبل الخطبة، ج: 2/ صفحہ: 436، رقم الحدیث: 3228، ط:  دار الفكر، بيروت)

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر، وعمر، يصلون العيدين قبل الخطبة) قال التوربشتي: ذكر الشيخين مع النبي صلى الله عليه وسلم فيما يقرره من السنة ... قال ابن المنذر: أجمع الفقهاء على أن الخطبة بعد الصلاة".

(کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج: 3/ صفحہ: 1016، رقم الحدیث: 1428/ ط: دار الفكر بيروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويخطب بعدها خطبتين) وهما سنة (فلو خطب قبلها صح وأساء)؛ لترك السنة، وما يسن في الجمعة ويكره يسن فيها ويكره.

(قوله: فلو خطب قبلها إلخ) وكذا لو لم يخطب أصلًا كما قدمناه عن البحر (قوله: يسن فيها ويكره) أي إلا التكبير وعدم الجلوس قبل الشروع فيها فإنهما سنة هنا لا في خطبة الجمعة".

(کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج: 2/ صفحہ: 175/ ط: ایچ، ایم، سعید)

 حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح  میں ہے:

"اعلم أن الخطبة سنة وتأخيرها إلى ما بعد الصلاة سنة أيضًا، نهر عن الظهيرية. وكونه مسيئًا بالتقديم لايدل على نفي سنية أصلها مطلقًا؛ لأن الإساءة لترك سنة التأخير، وهي غير أصل السنة، وفي الدرة المنيفة: لو خطب قبل الصلاة جاز وترك الفضيلة ولاتعاد، ومثله في مسكين  اهــ".

(کتاب الصلاۃ، باب أحکام العیدین، ص: 528/ ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144202200563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں