بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز چھوڑنے والے کو کافر قرار دینا


سوال

نماز چھوڑنے والوں کو کافر قرار دینا کیسا ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص محض سستی کی وجہ سے نماز ترک کر دیتا ہے، لیکن نماز کی فرضیت کا عقیدہ رکھتا ہے تو  جمہور کے نزدیک ایسا آدمی نماز چھوڑنے کی وجہ سے کافر نہ ہو گا، اور اس کو کافر  کہنا درست نہیں ۔

ہاں! اگر کسی شخص کے بارے میں  معلوم ہو  کہ یہ  آدمی نماز کو اس اعتقاد کے ساتھ ترک کرتا ہے کہ نماز فرض ہی نہیں تو ایسا آدمی کافر ہے، اور اس کو کافر کہنا بھی غلط نہ ہوگا۔ (مستفاد: فتاویٰ مفتی محمود، ج۱، ص۸۸۹، ط:  جمعیۃ پبلیکشنز)

مرقات میں ہے:

"وفي الحديث دليل لمن قال: لايقتل أحد دخل الإسلام بشيء سوى ما عدد كترك الصلاة على ما هو المذهب عندنا. قال بعض شراح الأربعين: وخالفه الجمهور لقوله عليه الصلاة والسلام: " «‌من ‌ترك ‌الصلاة متعمدا فقد كفر» ". أي استحق عقوبة الكفر كذا فسره الشافعي. قلت: الحديث السابق نص في الحصر المفيد لنفي قتله، فلا يثبت إثباته بمثل هذا الاستدلال مع وجود غيره من الاحتمال، فإنه فسر بأنه قارب الكفر، أو شابه عمل الكفرة، أو يخشى عليه الكفر، أو المراد بالكفر الكفران، أو محمول على ما إذا استحل تركه أو نفى فرضيته، أو على الزجر الشديد والتهديد والوعيد، كما في قوله تعالى بعد إيجاب الحج: {ومن كفر فإن الله غني عن العالمين} [آل عمران: 97] حيث وضع قوله: كفر موضع من لم يحج.

(«مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح» (6/ 2258)، ‌‌[كتاب القصاص]، الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں