بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز باجماعت کے دوران کتنی بلند آواز سے رکوع سجدے کی تسبیحات پڑھنی چاہیے؟


سوال

 نماز باجماعت کے دوران کتنی بلند آوازسے رکوع سجدے اور قعدہ میں تسبیحات پڑھ سکتے ہیں ؟ہماری مسجد میں ایک صاحب اتنی آوازسے پڑھتے ہیں کہ دائیں بائیں دو نمازی ان کی آواز سن سکتے ہیں ،جب اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے ،تو حدیث کے حوالے دیتے ہیں ،کیا وہ صحیح کر رہے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ نماز میں جو  اَذکار انفرادی طور پر پڑھے جاتے ہیں ان کو  آہستہ آواز سے پڑھنا مسنون ہے،  جہراً نہیں پڑھنا چاہیے،چناچہ  تکبیراتِ انتقال، اور  رکوع و سجود کی تسبیحات اور تشہد  آہستہ آوازمیں پڑھنا چاہیے، اور آہستہ آواز سے پڑھنے کی مقدار یہ ہے کہ اتنی آواز سے حروف کی ادائیگی کرے  کہ خود سن سکے، برا بروالوں تک آواز نہ پہنچے ،اور باجماعت نماز میں بلند آواز سے پڑھنے میں ساتھ والے نمازیوں کو  تکلیف بھی ہے ،لہذا مذکورہ صاحب کا یہ عمل خلاف سنت ہونے کے ساتھ دوسرے نمازیوں کی نماز میں خلل اور ان کو تکلیف دینے کی وجہ سے گناہ کا سبب بھی ہے،لہذا اس سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

سنن الترمذی  میں ہے:

"حدثنا ‌أبو سعيد الأشج، قال: حدثنا ‌يونس بن بكير ، عن ‌محمد بن إسحاق ، عن ‌عبد الرحمن بن الأسود ، عن ‌أبيه، عن ‌ابن مسعود، قال: «من السنة أن يخفي» التشهد.

حديث ابن مسعود حديث حسن غريب.والعمل عليه عند أهل العلم."

(ابواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،باب ما جاء أنه ‌يخفي التشهد،ج:1،ص:323،رقم :291،ط:دار الغرب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(سننها) رفع اليدين للتحريمة، ونشر أصابعه، وجهر الإمام بالتكبير، والثناء، والتعوذ، والتسمية، والتأمين سرًّا".

(کتاب الصلاۃ ،الباب الرابع،الفصل الثالث فی سنن الصلاۃ وآدابھا وکیفیتہا،ج:1،ص:72،ط:دار الفکر)

حلبی کبیر میں ہے:

"القراءة وهو تصحیح الحروف بلسانه بحیث یسمع نفسه، فإن صُحح الحروف من غیر أن یسمع نفسه  لايكون ذلك قراءة في اختیار الهندواني والفضلي ... الخ  و قیل: إذا صُحح الحروف یجوز وإن لم یسمع نفسه  وهو اختیار الکرخي رحمه اللہ."

(حلبي کبیر، ص:275)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں