میرے والدین کاانتقال ہوا، ان کے ذمے کئی سالوں کی نمازیں اور روزے لازم تھے،جو وہ اپنی زندگی میں ادا نہیں کرسکے،اور نہ ہی انہوں نے موت سے قبل فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی،انتقال کے وقت والد صاحب کی عمر80سال تھی اور والدہ کی عمر85سال تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ ان کی نماز اور روزوں کافدیہ ان کی کس عمر سے لاگو ہوگا؟اور یہ بھی بتائیں کہ فدیہ کانصاب کیا ہے اور یہ کس طرح ادا کیاجائے؟ کیا یہ فدیہ ہم رشتہ داروں کو دےسکتے ہیں؟یا مسجد اور مدرسہ وغیرہ کو دے سکتے ہیں یا نہیں؟
اگر والدین نے اپنے ذمہ رہی ہوئی نمازوں اور فوت شدہ روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی، تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنالازم نہیں ہے،البتہ اگر ورثاء بالغ ہیں اور وہ انفرادی یا اجتماعی طور پر فدیہ ادا کردیں تو یہ والدین پر احسان ہوگا۔
چناں چہ صورتِ مسئولہ میں والدین کی اگر بلوغت کی عمر معلوم نہ ہو، تو والدصاحب کی بارہ سال عمرہونے کے بعد اور والدہ کی عمر نو سال مکمل ہونے کے بعد سے ان کی رہی ہوئی نمازوں اور فوت شدہ روزوں کے فدیہ کا حساب کیاجائےگا،جس کی صورت یہ ہوگی اگر رہی ہوئی نمازوں کی تعداد معلوم ہے تو اس یقینی تعداد کے حساب سے،اور اگر تعداد معلوم نہیں ہے،تو والدین سے جتنی نمازیں اور روزے رہ گئے ہیں،ان کا غالب گمان سے اندازہ لگاکر اسی تعداد کے مطابق فدیہ ادا کردیاجائے۔
ایک فرض نماز اور وتر کا فدیہ نصف صاع (دو کلو) گندم یا اس کی موجودہ قیمت ہے،یعنی ایک دن کی نمازوں کا فدیہ بارہ کلو گندم یا اس کی قیمت ہے،اسی طرح ایک روزے کافدیہ بھی نصف صاع دو کلو گندم یا اس کی قیمت ہے، نیز فدیہ کی رقم کامصرف زکاۃ کے مستحق لوگ ہیں؛ لہٰذا اگر رشتہ داروں میں کوئی فرد غریب مستحقِ زکاۃ ہے اور وہ والدین کے اصول وفروع میں سے بھی نہیں ہے، تو فدیہ اس کو دے دیاجائے،ورنہ کسی مدرسہ کے ضرورت مند،غریب مستحقِ زکاۃ طلباء کو دے دیاجائے۔
البحر الرائق مع حاشية منحة الخالق میں ہے:
"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة وأوصى بأن يعطى كفارة صلاته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع.
[منحة الخالق] : (قوله إذا مات الرجل وعليه فوائت إلخ) قال العارف في شرحه على هدية ابن العامد ورأيت بخط والدي رحمه الله تعالى معزيا إلى أحكام الجنائز ما صورته ثم طريق إسقاط الصلاة الذي يفعله الأئمة في زماننا هو أن السنة إما شمسية وإما قمرية ... فبقي أن تحسب فدية الصلاة بالسنة الشمسية أخذا بالاحتياط من غير اعتبار ربع اليوم ... ثم يحسب سن الميت فيطرح منه اثنا عشر سنة لمدة بلوغه إن كان الميت ذكرا وتسع سنين إن كانت أنثى لأن أقل مدة بلوغ الرجل اثنا عشر سنة ومدة بلوغ المرأة تسع سنين."ـ
(ص:٩٧،ج:٢،كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت،ط: دار الكتاب الإسلامي)
الفتاوي الهنديةمیں ہے:
"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله وإن لم يترك مالا يستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى مسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا، كذا في الخلاصة. وفي فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة نصف صاع حنطة منوين."
(ص:١٢٥،ج:١،کتاب الصلاۃ،الباب الحادی عشر فی قضاء الفوائت،ط: دار الفکر،بیروت)
حاشية ابن عابدين میں ہے:
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم.
(قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه ... ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."
(ص:٧٢،ج:٢،کتاب الصلاۃ،باب قضاء الفوائت،ط: ایج ایم سعید)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:
’’سوال: مصارفِ فدیہ مفصل تحریر فرمائیے، اور فدیہ کی رقم مندرجہ ذیل مصارف میں صرف کی جاسکتی ہے یانہیں؟
غرباء،مساکینِ مکہ معظمہ، مظلومین سمرنا،خلافت کمیٹی، تعمیرِ چاہات و مسافر خانہ ومساجد وغیرہ، خریدِ کتبِ احادیث برائے مدرسہ، نیز فدیہ کی رقم سے کسی عالم یا مولوی مستحقِ زکاۃ کو ہزار پانچ سو روپے کی کتابیں خرید کر دیناجائز ہے یا اسے نقد روپیہ دے دیاجائےکہ وہ خود کتابیں خرید لے؟
جواب: فدیہ واجبہ کے مصارف وہی ہیں جو زکاۃ کے مصارف ہیں،اس میں محتاج و مفلس کو مالک بنانا ضروری ہے،خواہ وہ غرباء ومساکینِ مکہ معظمہ ہوں یا مظلومین سمرنا وغیرہ، ان کی ملک ہوجاناضروری ہے،پس جن مصارف میں تملیک کسی کی نہیں ہوتی ان مصارف میں صرف کرنااس رقمِ فدیہ کا درست نہیں ہے۔۔۔‘‘
(ص:١٧٢،ج:٦،کتاب الزکاۃ،ساتواں باب مصارفِ زکاۃ،ط: دار الاشاعت، کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101202
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن