میری بیٹی اپنے شوہرکے ساتھ دبئی میں رہتی ہے ،شادی کونوماہ ہوگئے ہیں، اس کے شوہرنامردہے اس لیےبیٹی خلع لیناچاہتی ہے، دھوکہ دہی کی وجہ سے شادی ہوگئی ،شرع میں کیااحکام ہیں؟ لڑکے سےکاغذات میں کیالکھواناہے؟نوماہ میں ایک مرتبہ بھی ہمبستری نہیں کرسکاہے شادی سے قبل ہمیں اس بات کاعلم نہیں ہوا، بیٹی نے یہ بات اپنی والدہ کوبتائی ہے ۔لڑکے سے ہم نے نہیں پوچھاہے اب ہمیں شرعی طورپرکیاکرناچاہئے؟ طلاق لےلیں ، خلع لے لیں؟ لڑکے کےلیے ایسی حالت میں کیابہترہے؟
صورت مسئولہ میں اگرواقعۃ ًسائل کادامادنامردہے اوراپنی بیوی کے حقوق کی ادائیگی پر قادرنہیں ہےتواسے چاہئے کہ وہ بیوی کوباعزت طریقےسےطلاق دے کرفارغ کردےاوربیوی کے حقوق مہروغیرہ بھی اداکردے،اگرشوہرطلاق نہ دےتواس سےخلع لےلے، اورخلع حاصل کرنےکاطریقہ یہ ہےکہ سائل کی بیٹی اسٹامپ پیپرپریہ تحریرلکھے کہ میں اپنے حقِ مہر کےبدلہ میں شوہرسے خلع طلب کرتی ہوں۔اورشوہرسے اس کےجواب میں یہ تحریرلکھوائےکہ میں حق مہرکے بدلے میں خلع دیتاہوں ۔توخلع واقع ہوجائے گی ،اس طرح سائل کی بیٹی پرایک طلاق بائن واقع ہوجائےگی،نکاح ٹوٹ جائے گا عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکے گی ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية .
( الفتاوى الهندية، كتاب الطلاق، الباب الثامن ، الفصل الأول ۱/ ۴۸۸ط: رشيديه)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول"۔
(رد المحتار علی الدر المختار ، كتاب الطلاق، باب الخلع ۳/ ۴۴۱ ط:سعيد)
اوراگرسائل کادامادطلاق یاخلع پربھی رضامندنہ ہوتوسائل کی بیٹی اپنا نکاح عدالت کے ذریعہ ختم کرواسکتی ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ سائلہ اپنا معاملہ مسلمان قاضی /جج کی عدالت میں پیش کرے، قاضی واقعہ کی تحقیق کرےاگر مرض قابلِ علاج ہو تو اسے علاج کرنے کے لیے ایک سال کی مہلت دی جائے گی، اگر وہ ٹھیک ہوگیا تو فسخ نکاح کا حق ختم ہوجائے گااور اگر وہ اس عرصہ میں ٹھیک نہیں ہوا اور بیوی دوبارہ نکاح ختم کرنے کا مطالبہ کرے تو قاضی شوہر سے کہے گا کہ اسے طلاق دے دو ، اگر وہ انکار کرے تو قاضی خود تفریق کردے گا، یہ تفریق شرعا طلاق بائنہ ہوگی۔
(حیلہ ناجزہ ص:۴۵ تا ۴۷ ط:دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
( فلو وجدته عنينا ) أو مجبوبا ( ولم تخاصم زمانا لم يبطل حقها ) وكذا لو خاصمته ثم تركت مدة فلها المطالبة ولو ضاجعته تلك الأيام خانية
و في الرد: قوله ( لم يبطل حقها ) أي ما لم تقل رضيت بالمقام معه كذا قيده في التاترخانية عن المحيط هنا وفي قوله الآتي كما لو رفعته الخ
( الدر المختار، كتاب اطلاق ، باب العنين 3 / 496 ط: سعيد)
وفیہ ایضا:
ثم اعلم أن ما مر من أن خيارها على التراخي لا على الفور لا ينافي ما هنا لأن ما مر إنما هو في الخيار قبل التأجيل أو بعده قبل المرافعة وتخيير القاضي لها وما هنا فيما بعد التأجيل والمرافعة ثانيا يعني أنها إذا وجدته عنينا فلها أن ترفعه إلى القاضي ليؤجله سنة وإن سكت مدة طويلة فإذا أجله ومضت السنة فلها أن ترفعه ثانيا إلى القاضي ليفرق بينهما وإن سكتت بعد مضي السنة مدة طويلة قبل المرافعة ثانيا فإذا رفعته إليه وثبت عدم وصوله إليها خيرها القاضي فإن اختارت نفسها في المجلس أمره القاضي أن يطلقها
قال في البدائع فإن خيرها القاضي فأقامت معه مطاوعة في المضاجعة وغير ذلك كان دليل الرضا به ولو فعلت ذلك بعد مضي الأجل قبل تخيير القاضي لم يكن ذلك رضا
( الدر المختار مع رد المحتار ، كتاب اطلاق ، باب العنين 3 / 500 ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100385
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن