ہمارے محلے کی مسجد کے نیچے ساٹھ فیصد زمین ہے کچھ حصہ مسجد اور کچھ حصہ عیدگاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور کچھ حصہ خالی پڑاہے، عرصہ دراز سے ایسا ہی ہو رہا ہے، اب مقامی لوگ اس خالی جگہ پر قبرستان بنانا چاہتے ہیں،لیکن یہ جاننا ممکن نہیں کہ پوری جگہ مسجد یا عیدگاہ کے لیے وقف ہے،اب سوال یہ ہے کہ کیا خالی جگہ پر قبرستان بنایا جا سکتا ہے؟
تنقیح :
وضاحت دیجیے کہ مذکورہ خالی زمین کسی گاؤں دیہات کی ہے یا شہری زمین ہے؟
جوابِ تنقیح:
مذکورہ زمین شہرکی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ زمین کامسجدکےساتھ متصل ہونا اور اس کا مسجد کے طور پر استعمال ہونا اس بات کی علامت ہےکہ مذکورہ زمین مسجدکےلیےوقف کی گئی ہے؛لہذااحتیاط اس میں ہےکہ اس خالی جگہ پرقبرستان نہ بنایاجائے،بلکہ وہ جگہ مسجدکےزیرِ استعمال لائی جائے۔
فتاوی حامدیۃ میں ہے:
"ويجب الإفتاء والقضاء بكل ما هو أنفع للوقف."
(كتاب الوقف،١١٩/١،ط:دار المعرفة)
مجمع الانہرمیں ہے:
"وفي الدرر وتقبل فيه أي في الوقف الشهادة على الشهادة وشهادة الرجال بالنساء والشهادة بالشهرة لإثبات أصله وإن صرحوا بالتسامع بخلاف سائر ما تجوز فيه الشهادة بالتسامع كالنسب فإنهم إذا صرحوا بأنهم شهدوا بالتسامع لا تقبل لأن الوقف حق الله تعالى وفي تجويز القبول بتصريح التسامع حفظ للأوقاف القديمة عن الاستهلاك."
(كتاب الوقف،٧٥٥/١،ط:دار إحياء التراث العربي)
الدرمع الردمیں ہے:
"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي (وعاد إلى الملك) أي ملك الباني أو ورثته (عند محمد)وعن الثاني ينقل إلى مسجد آخر بإذن القاضي (قوله: وعن الثاني إلخ) جزم به في الإسعاف حيث قال: ولو خرب المسجد، وما حوله وتفرق الناس عنه لا يعود إلى ملك الواقف عند أبي يوسف فيباع نقضه بإذن القاضي ويصرف ثمنه إلى بعض المساجد اهـ ."
(كتاب الوقف،٣٥٩/٤،ط:سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"مراعاة غرض الواقفين واجبة والعرف يصلح مخصصا."
(كتاب الوقف،٤٤٥/٤،ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144412101105
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن