بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کی دو رکعتوں میں دو سورتوں کے درمیان فصل کرنے کا حکم


سوال

1-امام اگر سورۃ الضحیٰ پڑھنے کے بعد سورۃ التین پڑھے یعنی دو سورتوں کے درمیان ایک سورت کا فصل ہویعنی چھوٹی سورتیں پڑھنے کی صورت میں تو اس کا کیا حکم ہے؟

2-امام کے سلام پھیرنے کے بعد نمازی حضرات سنت پڑھنے کے لیے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

3-امام کے سلام پھیرنے کے بعد بعض مقتدی امام کے مصلیٰ میں اور امام مقتدی کی جگہ میں نماز پڑھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1-واضح رہے کہ فرض نماز میں اگر دو رکعتوں میں دو سورتیں پڑھی جائیں اور دونوں سورتوں کے درمیان کوئی مختصر سورت (یعنی  قصارِ مفصل میں سے  کوئی سورت، قصارِ مفصل: سورت لم یکن سے آخرِ  قرآن تک کی سورتوں کو کہا جاتا ہے) چھوڑدی جائے تو قصدا ایسا کرنا مکروہ تنزیہی ہے، جیسے پہلی رکعت میں سورۃ اخلاص اور دوسری میں سورۃ ناس  پڑھنا ، البتہ كسی بڑی سورت کا فاصلہ کرنا (جو قصارِ مفصل میں سے نہ ہو ، يعنی اول قرآن سے لے کر سورت لم یکن تک کی سورتوں میں سےکسی سورت کا فاصلہ کرنا) یا ایک سے زائد مختصر سورتوں کا فاصلہ کرنا بلا کراہت جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں پہلی رکعت میں سورۃ الضحیٰ اور دوسری رکعت میں سورۃ التین پڑھنا بلا کراہت جائز ہے؛ کیوں کہ دونوں کے درمیان سورۃ الم نشرح ہے، اور الم نشرح سورت  قصارِ مفصل میں سے نہیں ہے، بلکہ اوساطِ مفصل میں سے ہے، اس لیے اس کا فاصلہ مکروہ نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ فقہائے کرام نے مدار قصار ِمفصل کو بنایا ہے (علی ما رجحہ الشامی)، سورت کی آیات کا اعتبار نہیں کیا، اس لیے سورت الم نشرح اگرچہ آیات کی تعداد کے لحاظ سے (اوساطِ مفصل کی بعض سورتوں  سے ) چھوٹی ہے، لیکن قصار میں سے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا فاصلہ مکروہ نہ ہوگا۔

مذکورہ بالا کراہت صرف فرض نمازوں میں ہے، سنن و نوافل میں نہیں ہے اگرچہ سنت مؤکدہ  ہو، لیکن بہتر ان میں بھی یہ ہے کہ ترتیب کی رعایت رکھی جائے، درمیان میں کسی سورت کا فاصلہ نہ کیا جائے۔

2-صورتِ مسئولہ میں فرض نماز کے بعد  سنتیں پڑھنے کے لیے  جگہ   بدلنا لازم اور ضروری تو نہیں ہے، البتہ مستحب ہے امام، مقتدی، مرد، عورت، سب کے لیے خواہ گھر میں ہوں یا مسجد میں، اور فقہائے کرام رحمہم اللہ  نے اس کی دو حکمتیں بیان فرمائی ہیں،  (۱) ۔۔جہاں نماز پڑھی جائے گی اس جگہ کو اپنی بندگی پر گواہ بنانا، جتنی دفعہ جگہ تبدیل ہوتی جائے گی اتنے گواہ بڑھتے جائیں گے، (۲)۔۔دفع اشتباہ کے لیے؛ کیوں کہ جب جگہ تبدیل ہوگی تو جماعت کی ہیئت ختم ہو جائے گی، اور آنے والے کو یہ اشتباہ نہیں ہوگا کہ جماعت ہو رہی ہے۔

3-صورتِ مسئولہ میں سلام پھیرنے کے بعد امام کا متقدی کی جگہ اور متقدی کا امام کی جگہ سنتیں پڑھنا  اگر جگہ تبدیل کرنے کے لیے ہے تو جائز ہے، لیکن اگر  لازم ، ضروری اور  باعثِ ثواب سمجھ کر  اہتمام کے ساتھ یہ عمل کیا جاتا ہے تو  یہ عمل قابلِ اصلاح ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ويكره ‌الفصل ‌بسورة قصيرة) أما بسورة طويلة بحيث يلزم منه إطالة الركعة الثانية إطالة كثيرة فلا يكره شرح المنية: كما إذا كانت سورتان قصيرتان، وهذا لو في ركعتين أما في ركعة فيكره الجمع بين سورتين بينهما سور أو سورة."

(کتاب الصلاہ، باب صفہ الصلاہ، فصل فی لقراءہ، فروع یجب الاستماع للقراءہ مطلقا، ج:1، ص:546،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما في ركعتين إن كان بينهما سور لا يكره وإن كان بينهما سورة واحدة قال بعضهم: يكره، وقال بعضهم: إن كانت السورة طويلة لا يكره. هكذا في المحيط كما إذا كان بينهما سورتان قصيرتان....هذا كله في الفرائض وأما في السنن فلا يكره."

(کتاب الصلاہ،الفصل الرابع فی القراءہ، ج:1، ص:79، ط:مصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر ’’ البروج‘‘  (..... و) منها إلى آخر  ’’لم يكن ‘‘  (أوساطه ،و) باقية (قصاره)....في كل ركعة سورة مما ذكر.....(قوله أي في كل ركعة سورة مما ذكر) أي من الطوال والأوساط والقصار، ومقتضاه أنه لا نظر إلى مقدار معين من حيث عدد الآيات."

(کتاب الصلاہ، فصل فی القراءہ، ج:1، ص:540، ط:سعید)

وفيه ايضاّ:

"(قوله يكره للإمام التنفل في مكانه) بل يتحول مخيرا ....والكراهة تنزيهية كما دلت عليه عبارة الخانية (قوله لا للمؤتم) ومثله المنفرد، لما في المنية وشرحها: أما المقتدي والمنفرد فإنهما إن لبثا أو قاما إلى التطوع في مكانهما الذي صليا فيه المكتوبة جاز، والأحسن أن يتطوعا في مكان آخر. اهـ. (قوله وقيل يستحب ‌كسر ‌الصفوف) ليزول الاشتباه عن الداخل المعاين للكل في الصلاة البعيد عن الإمام."

(کتاب الصلاہ، باب صفہ الصلاہ، فصل فی تالیف الصلاہ الی انتہائہا، ج:1، ص:531، طـ:مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100204

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں