بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز کے دوران سورہ نبأ میں (وکأسا دھاقا) کی جگہ (وکأسا دحاقا) پڑھنے کا حکم


سوال

نماز میں "دِهَاقًا" کی جگہ"  دِحَاقًا"پڑھ دیا، کیا حکم ہے؟نماز ہو گی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  اگرکوئی شخص نماز   کی   قراءت میں       دوحرفوں کے  درمیان آسانی  سے بغیر کسی مشقت کے  فرق کرسکتا ہے،   مگر پھر بھی اس نےفرق نہیں کیا اور ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف  پڑھ لیا  اور معنی بدل گیا تو نماز فاسد ہوجائے گی ، اور اگر اس کے لیے دوحرفوں کے درمیان فرق کرنا دشوار ہو، جیسے:سین اورصاد میں،ظاء اورضاد میں ،طاء اورتاء میں،عین اورہمزہ میں،حاء اورہاء میں ، تو اس صورت میں اگر  اس  نے قصداً ایک حرف کی جگہ دوسرا پڑھ لیا ہو  تو بھی نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر بلاقصد ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف  زبان سے نکل گیاہو، یا ایسا ناواقف اور اَن پڑھ شخص  ہو  کہ جو دونوں حرفوں  میں فرق کونہ جانتا ہو تو نماز ہو جائے گی۔

مذکورہ قاعدہ کی روسےصورتِ مسئولہ میں نمازکےدوران سورہ نبأکی آیت "وَكَأْسًا دِهَاقًا" کےبجائے"وَكَأْسًا دِحَاقًا"پڑھنےکی صورت میں پڑھنےوالے شخص نے اگر صحیح حرف کی  ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود اس طرح پڑھا ہے، تواس سے نماز فاسد ہو جائےگی  اور اگر قصداً ایسا نہیں پڑھاہے،  بلکہ کوشش کے باوجود ادائیگی ایسی ہی ہوتی ہےیابلاقصد ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف  زبان سے نکل گیاہے تو ایسی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو ‌زاد ‌كلمة أو نقص كلمة أو نقص حرفاأو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها .... (قوله إلا ما يشق إلخ) قال في الخانية والخلاصة: الأصل فيما إذا ذكر حرفا مكان حرف وغير المعنى إن أمكن الفصل بينهما بلا مشقة تفسد، وإلا يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد المعجمتين والصاد مع السين المهملتين والطاء مع التاء قال أكثرهم لا تفسد. اهـ. وفي خزانة الأكمل قال القاضي أبو عاصم: إن تعمد ذلك تفسد، وإن جرى على لسانه أو لا يعرف التمييز لا تفسد، وهو المختار حلية وفي البزازية: وهو أعدل الأقاويل، وهو المختار اهـ .... قلت: فينبغي على هذا عدم الفساد في إبدال الثاء سينا والقاف همزة كما هو لغة عوام زماننا، فإنهم لا يميزون بينهما ويصعب عليهم جدا كالذال مع الزاي ولا سيما على قول القاضي أبي عاصم وقول الصفار، وهذا كله قول المتأخرين، وقد علمت أنه أوسع وأن قول المتقدمين أحوط قال في شرح المنية: وهو الذي صححه المحققون وفرعوا عليه، فاعمل بما تختار، والاحتياط أولى سيما في أمر الصلاة التي هي أول ما يحاسب العبد عليها."

(کتاب الصلاة، باب مایفسد الصلاۃ ومایکره فيها،1 / 632۔633، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں