بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نام رکھنے کا حق والد کو ہے


سوال

 میری بیٹی پیدا ہوئی ہے ، اور میری والدہ محترمہ ان کا نام ایلاف فاطمہ رکھنا چاہتی ہیں، جب کہ میری بیوی شفا فاطمہ رکھنا چاہتی ہے، ایک طرف میری والدہ محترمہ ہے اور دوسری طرف میری بیوی ہے،  میں ان دونوں کے درمیان کنفیوژن کا شکار ہوں، میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ میں ایلاف فاطمہ رکھ لوں، تاکہ میری والدہ محترمہ کا دل نہ ٹوٹے، برائے مہربانی آپ راہ نمائی فرما دیں۔

جواب

واضح رہے کہ نومولود  بچے کا نام رکھنا والد کا حق ہے، تاہم  اسے اختیار ہے کہ نام خود رکھے یا اپنا اختیار کسی اور  کو دے دے،  لیکن بہتر یہ ہے کہ  آپس میں باہمی مشورہ سے کوئی اچھا سا نام رکھ لیں اور اس مسئلہ کو اختلاف کی وجہ نہ بنائیں،البتہ  اگر بچے کے دادا یا دادی کوئی نام تجویز کریں اور اس میں کوئی شرعی خرابی نہ ہو  تو آداب اور اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی خوش نودی  کی خاطر  وہی نام رکھا جائے، اس معاملہ میں والد یا والدہ  کی  ناراضی مول لینا صحیح نہیں،  ہاں پیار محبت سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کرنا منع نہیں ہے، اور یہ نافرمانی میں شمار نہیں ہوگا، اسی طرح پیار محبت کے ساتھ بیوی کو بھی راضی کرنے چاہیے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل کا میلان  "ایلاف فاطمہ " نام رکھنے کی طرف ہے تو یہ نام رکھ سکتا ہے، تاہم بیوی کو پیار و محبت سے راضی کرے اور اگر صرف فاطمہ نام رکھ لے تو دونوں کی رائے پر عمل ہوجائے گا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کی براہِ راست برکت حاصل ہوگی۔

حدیث شریف  میں ہے :

"وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ولد له ولد ‌فليحسن ‌اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما فإنما إثمه على أبيه."

(مشکاۃ المصابیح،کتاب النکاح،ج:2،ص:939،ط:المکتب الإسلامی)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"‌‌الفصل الخامس في أن التسمية حق للأب لا للأم، هذا مما لا نزاع فيه بين الناس وأن الأبوين إذا تنازعا في تسمية الولد فهي للأب والأحاديث المتقدمة كلها تدل على هذا وهذا كما أنه يدعى لأبيه لا لأمه فيقال فلان ابن فلان قال تعالى {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله} والولد يتبع أمه في الحرية والرق ويتبع أباه في النسب والتسمية تعريف النسب والمنسوب ويتبع في الدين خير أبويه دينا فالتعريف كالتعليم والعقيقة وذلك إلى الأب لا إلى الأم وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم ولد لي الليلة مولود فسميته باسم أبي إبراهيم وتسمية الرجل ابنه كتسمية غلامه."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیته واحکامها،‌‌الفصل الخامس فی ان التسمیة حق للاب لا للام ،ص:135، ط:دارالبیان)

الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ میں ہے:
تسمية المولود: ذكر ابن عرفة أن مقتضى القواعد وجوب التسمية، ومما لا نزاع فيه أن الأب أولى بها من الأم، فإن اختلف الأبوان في التسمية فيقدم الأب."

 (‌‌أحكام التسمية، تسمية المولود، ج:11، ص:328،  ط: دار السلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں