بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نام اور عمر کے اعتبار سے رنگ وغیرہ کا انتخاب


سوال

میرا نام محمد ناصر ہے میری تاریخ پیدائش 1 نومبر 1991 ءہے، میرےنام اور تاریخ پیدائش کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے لیے کون سا رنگ ، دھات ، عدد اور پتھر میرے لیے اچھا ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ اس کائنات میں پیش آنے والا ہر چھوٹا بڑا واقعہ اللہ تعالی کے حکم اور منشا کے مطابق ہوتاہے، اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوتا، ہماری کوتاہ فہموں کو سمجھانے اور کائنات کا مرتب نظام چلانے کے لیے اللہ رب العزت نے ہمارے روزمرہ کے معاملات کو ظاہری اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، روٹی بھوک مٹاتی ہے،پانی پیاس بجھاتا ہے ، آگ حرارت کا سامان مہیا کرتی ہے وغیرہ وغیرہ،ان تمام اسباب کے پیچھے   اللہ تعالی کی ذات  ہے ،جو اس تمام نظام کو چلا رہی ہے، کسی ظاہری سبب یا شے کا اس نظام کو چلانے اور اس پر اثر انداز ہونے میں  بذات خودکوئی دخل نہیں، ستارے، سیارےاور ہاتھوں کی لکیروں کا انسانی زندگی کے بنانے یا بگاڑنے میں کوئی اثر نہیں،لہذا پتھر،دھات ،عدد یا رنگ بھی  انسانی زندگی پراثر انداز نہیں ہوتے، انسان کی زندگی مبارک یا نامبارک ہونے میں اس کے اعمال کا دخل ہے، نیک اور اچھے اعمال انسان کی مبارک زندگی اور برے  اعمال ناخوشگوار زندگی کا باعث ہوتے ہیں، پتھروں کو یا اس جیسی دیگر چیزوں کو اثر انداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت اس سے مخاطب ہو کر ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو پتھر ہے، نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے رسول خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا  تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں نام اور تاریخ پیدائش کو مدِ نظر رکھ کر کسی پتھر ،دھات ،عدد یا رنگ وغیرہ کو مؤثر حقیقی  سمجھناشرعی نقطہ نگاہ سے درست نہیں، بلکہ اس سے بچنا ضروری ہے، کیوں کہ بسا اوقات یہ نظریہ کفر کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے،ان نظریات کو ترک کرکے  ہر چیز کے مؤثر ہونے میں اللہ تعالیٰ کی ذات و قدرت کے کارفرما ہونے کا عقیدہ رکھنا چاہیے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا خلف بن هشام والمقدمى وأبو كامل وقتيبة بن سعيد كلهم عن حماد - قال خلف حدثنا حماد بن زيد - عن عاصم الأحول عن عبد الله بن سرجس قال رأيت الأصلع - يعنى عمر بن الخطاب - يقبل الحجر ويقول والله إنى لأقبلك وإنى أعلم أنك حجر وأنك لا تضر ولا تنفع ولولا أنى رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قبلك ما قبلتك."

( كتاب الحج، باب استحباب تقبيل الحجر الأسود فى الطواف،925/2،ط:مکتبه عیسیٰ البابي)

 شرح مسلم نووی میں ہے:

"وأما قول عمر رضي الله عنه لقد علمت أنك حجر وأنى لأعلم أنك حجر وأنت لا تضر ولا تنفع فأراد به بيان الحث على الاقتداء برسول الله صلى الله عليه و سلم في تقبيله ونبه على أنه أولا الاقتداء به لما فعله وإنما قال وأنك لا تضر ولا تنفع لئلا يغتر بعض قريبى  العهد بالاسلام الذين كانوا ألفوا عبادة الأحجار وتعظيما ورجاء نفعها وخوف الضر بالتقصير في تعظيمها وكان العهد قريبا بذلك فخاف عمر رضي الله عنه أن يراه بعضهم يقبله ويعتنى به فيشتبه عليه فبين أنه لا يضر ولا ينفع بذاته وإن كان امتثال ما شرع فيه ينفع بالجزاء والثواب فمعناه أنه لا قدرة له على نفع ولا ضر وأنه حجر مخلوق كباقي المخلوقات التي لا تضر ولا تنفع وأشاع عمر هذا في الموسم ليشهد في البلدان ويحفظه عنه أهل الموسم المختلفوا الأوطان والله أعلم·"

(کتاب الحج،باب استحباب تقبیل الحجر،16،17/9،ط:دار إحیاء التراث)

فتح البارى میں ہے:

"قوله باب قول النبي صلى الله عليه و سلم العقيق واد مبارك.

···· وذكر بن الجوزي في الموضوعات عن حمزة الأصبهاني أنه ذكر في كتاب التصحيف أن الرواية بالتحتانية تصحيف وأن الصواب بالمثناة الفوقانية ولما قاله إتجاه لأنه وقع في معظم الطرق ما يدل على أنه من الخاتم وهو من طريق يعقوب بن الوليد عن هشام بلفظه ووقع في حديث عمر تختموا بالعقيق فإن جبريل أتاني به من الجنة الحديث وأسانيده ضعيفة."

( كتاب الحج، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: العقيق واد مبارك،392/3،ط:دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں