بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نام کے بھاری ہونے کا عقیدہ رکھنا


سوال

 میرا بیٹا دو سال کا ہے، اسکا نام حسنین ہے، مجھے کہا گیا ہے کہ نام تبدیل کردیں، اس نام کے بچے بہت روتے ہیں ،وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ نام بہت وزنی ہوتا ہے ،کیا یہ نام رکھ سکتے ہیں ؟اورکیا یہ وجہ  درست ہو سکتی ہے؟ 

جواب

 واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں  مسلمانوں کو اپنے بچوں کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا ، اور جن ناموں کے معنی اچھے نہ ہوں يا بدشگونی پر دلالت کرتے ہوں ايسے نام رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے، بلکہ ایسے نام جن کے معنی غلط ہوتے تھے یا ان سے کسی قسم کی بدشگونی کا امکان ہوتا تھا ،رسول اللہ صلی علیہ وسلم ايسے ناموں كو تبدیل بھی فرمادیا کرتے تھے، مثلاً حضرت جویریہ  رضی اللہ عنہا کا اصل نام بَرّہ تھا ،جسے آپﷺ نے بدل کر جویریہ رکھ دیا، اس بنا پر کہ یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ جس وقت برّہ نام کی عورت باہر جائے  تو کہا جائے کہ"ذهبت بَرّة  يعني نیکی چلی گئی ، اسی  طرح کسی مخصوص دن یا تاریخ کی مناسبت سے نام رکھنے کا اہتمام کرنا یا اس سے  نام کا لازمی طور پرانسانی شخصیت پر بھاری ہونے یا کوئی اثر پیدا ہونے کا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے، نہ ہی ایسی کوئی بات شریعت سے ثابت  ہے۔

نیز نام کے اچھا یا برا ہونے کا معیار  یہ نہیں ہے کہ وہ نام پسند آجائے، بلکہ اچھا ہونے کی بنیاد  شریعت کی نظر میں اس نام کا اچھا ہونا ہے، مذکورہ تفصیل کے بعد آپ نے سوال میں جو نام(حسنین) ذکر فرمایا ہے،وہ  عربی زبان کا لفظ ہے اور حسن کی تثنیہ ہے،اور اس کا معنی ہے: اچھے لوگ، نیک لوگ، حضرت حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ناموں کو ایک جگہ جمع کر کے یہ نام استعمال ہوتا ہے،  اس لیے شرعاً یہ نام اچھا ہے اور اس کے مطابق نام رکھنا درست ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن ابن المسيب، عن ابيه، ان اباه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما اسمك؟" قال: حزن قال:" انت سهل" قال: لا اغير اسما سمانيه ابي قال ابن المسيب: فما زالت الحزونة فينا بعد."

(كتاب الأدب،باب: اسم الحزن،2288/5،ط:دارإبن كثير)

التاریخ الکبیر میں ہے:

"عن يعلى بن مرة قال خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم فدعينا لطعام قال فإذا الحسين يلعب في الطريق فأسرع النبي صلى الله عليه وسلم أمام القوم  ثم بسط يديه فجعل حسين يمر مرة ههنا ومرة ههنا والنبي صلى الله عليه وسلم يضاحكه حتى أخذه فجعل النبي صلى الله عليه وسلم إحدى يديه في ذقنه والأخرى بين رأسه ثم اعتنقه فقبله وقال حسين مني وأنا منه أحب الله من أحب الحسن والحسين سبطان من الأسباط، وقال عفان عن وهيب عن عبد الله بن خثيم عن سعيد بن أبي راشد عن يعلى عن النبي صلى الله عليه وسلم، والأول أصح."

(يعلى بن مرة الثقفي،415/8،ط:دائرۃ المعارف العثمانیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101909

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں