بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نام کے تلفظ کی درست ادائیگی میں غلطی کرنے پر نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں


سوال

میری بیٹی کا نام" مِنحہ رمیض" ہے، صرف میں ہی صحیح تلفظ کے ساتھ پُکارتا ہوں، جب کہ سب لوگ "مِنہا" کہتے ہیں، دوسروں کےغلط نام پکارنے پر کیا مجھے  بیٹی کا نام تبدیل کرنا چاہیے؟کیا  بچی کی شخصیت پر اس کا کوئی اثر  پڑے گا؟

جواب

 واضح رہے کہ نام کو صحیح تلفظ کے ساتھ ہی ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، قصداً نام کے تلفظ کو بگاڑ کر کسی کو پکارنایا کوتاہی کرتے ہوۓ نام کا غلط تلفظ کرنا صحیح نہیں ہے ؛ اگر ناموں کا تلفظ صحیح نہ ہو تو بسا اوقات الفاظ کے بدل جانے سےمعنی ہی بدل جاتے ہیں؛اس لیے آپ دوسرے افراد کو بچی کا  نام صحیح تلفظ سے ادا کرنے کی  ترغیب دیں،تاہم  بلانے والے کا مقصد چوں کہ اصل نام کو ہی  پکارنا ہوتا ہے اور نام سے اصل مقصود آدمی کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے؛اس لیےاگر نام کے ذریعے بلانے میں تلفظ میں کمی کوتاہی  ہوجائے، تب بھی نام کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے؛لہٰذا  اس بناء پر آپ کو اپنی بیٹی کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے،نہ ہی  اس سے شخصیت پر کوئی اثر پڑے گا،بس جو کوئی  نام پکارنے میں غلطی کرے اس کو نام کا صحیح تلفظ بتا دیا کریں کہ اصل تلفظ"مِنْحَه"(میم کے زیر، نون کے سکون اور حاء کے زبر کے ساتھ ہے) جس کا معنی "عطیہ" ہے۔جب کہ "مِنها"عربی میں کوئی مستقل  لفظ نہیں ،بلکہ دو الفاظ "من" اور "ها" کا مجموعہ ہےجو  جملوں میں ربط اور جوڑکے لیے استعمال ہوتا ہے۔جب کہ اردو زبان میں اس کے معنیٰ "تفریق اورکٹوتی" کے ہیں؛لہٰذا "مِنھا" معنی کے اعتبار سے کوئی نام  نہیں ہے۔

تاج العروس میں ہے:

"(منحه) الشاة والناقة (كمنعه وضربه) يمنحه ويمنحه: أعاره إياها، وذكره الفراء في باب بفعل ويفعل. ومنحه مالا: وهبه. ومنحه: أقرضه. ومنحه: (أعطاه، والإسم: المنحة، بالكسر) ، وهي العطية، كذا في (الأساس)."

(منح، ج:7، ص:155، ط: دارالھدایة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144505100232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں