بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

نام کے انسانی شخصیت پر اثرانداز ہونے سے متعلق شرعی حکم


سوال

نام کے اچھا یا برا اور بامعنی یا بے معنی یا غلط معنی والا ہونے کا انسان کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے؟اور کیا نام کا اثر انسان کی شخصیت پرہمیشہ پڑتا ہے؟ نام کے اچھا یا برا ہونے کا معیار نام کےصرف معنی میں ہے؟ یا نام کسی کی نسبت کی وجہ سےبھی اچھا یا برا گردانا جاتا ہے؟ اگر کسی انسان کو اپنے نام کےمعنی یا نسبت معلوم نہ ہو ،پھر بھی اس نام کا اس پر اثر پڑتا ہے؟ انسان کی طبیعت پر اچھے یا برے اخلاق کا اثر اس کے نام کے سبب طاری ہوتا ہےیا نہیں ؟ نیزنام کا اثر کیا انسان کی صحت پر بھی پڑتا ہے؟ جیسا کہ (حکیم الامتؒ نے) فرمایا کہ "کان پور میں ایک صاحب تھے جن کا نام کلیم اللہ تھا اکثر بیمار رہتے تھے ، مجھ سے کہا گیا تو میں نے کہا کہ اپنا نام بدل دو ۔ کلیم اللہ کے بجائے سلیم اللہ نام رکھ لو ، انہوں نے ایسا ہی کیا ، نام بدلتے ہی وہ اچھے ہو گئے ۔" (ملفوظات حکیم الامتؒ، ج 24، ص 203 ، ط ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ ،1422ھ) اس بارے میں تفصیل سے وضاحت مطلوب ہے۔

نیز کئی صحابہ کرامؓ کے ناموں کے معانی لغت کے اعتبار سےبظاہر درست معلوم نہیں ہوتے، مثلا: ضِرار،خدیجہ،حرب،مرۃ،جمرۃ،حزن وغیرہ تو اگر ناموں کے اثرات انسانوں پر پڑتے ہیں تو ان صحابہ کرامؓ پر بھی بچپن سے ہی ان ناموں کے اثرات پڑتے تھے ؟ نیزحضرت سعید بن مسیبؒ کے دادا حضرت حزنؓ کے متعلق جو صحیح بخاری وغیرہ میں روایت ہے،اس میں جو حضرت سعید بن مسیبؒ کا تبصرہ ہے کہ(فَمَا زَالَتِ الْحُزُونَةُ فِينَا بَعْدُ) اس کی  تشریح کیا ہے ؟ نیز اس نام کا اثر کیا رسول اللہ ﷺ کی بات نہ ماننے کے بعد ظاہر ہوایااس نام کا اثر ان صحابی حضرت حزنؓ پر بچپن سے ہی تھاجب ان کے والد نے ان کا یہ نام رکھا تھا؟

جواب

واضح رہے کہ نام کے معنی کے اثرات کا انسان کی شخصیت اور اس کی فکر ومزاج پرظاہر ہونا ایک بدیہی امرہے، عمومی طور پر  نام کا انسان کی فکرو نفس پر  اثر پڑتاہے،اچھے نام کے اچھے اور برے نام کے برے اثرات  ہوتے ہیں، اورمسمیٰ کاپرتو ہونےکی وجہ سے جس شخصیت کے نام پر نام رکھا جاتا ہے، اس کے اثرات بچے پر پڑتے ہیں، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کےبقول جس طرح روح اوربدن کاباہمی تعلق ہے،بالکل اسی طرح نام معنی کے لیے قالب کی حیثیت رکھتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ  ایک ایسا آدمی جو بلند نسبت یا بلند معنی والے نام کا حامل ہو، عام حالات میں جب اس نام سے اس کا صحیح خطاب کیا جاتا ہے تو اس کا ایجابی اثر وہ اپنے اندر محسوس کرتا ہے،جب کہ اس کے برخلاف جس آدمی کا نام سلبی معنی یا نامناسب نسبت  رکھتا ہو، پکارتے وقت وہ  ذہنی و قلبی اذیت سے دوچار  ہوجاتاہے،اسی لیے خاتم الانبیاء  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس بارے میں اُمت کی راہ نمائی فرماکر اچھے نام رکھنے کی تلقین کرتے ہوۓفرمایاکہ تم انبیائے کرام ( علیہم السلام ) والے نام رکھا کرو،خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابراہیم رکھا تھا، اسی طرح کئی صحابہ کے نام بھی انبیاء کے نام پر رکھے۔ایک دوسری جگہ آپ ﷺنے ارشادفرمایا: "بے شک تمہیں  قیامت کے دن تمہارے ناموں  اور تمہارے آباء و اجداد کے ناموں سے پکارا جاۓ گا، لہٰذا تم اچھے نام رکھاکرو۔ "

چوں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ صفت ودیعت فرمائی ہے کہ وہ ہر اچھے نام کو  پسند کرتا اور   بھلی نسبت کو چاہتا ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس انسانی کیفیت سے بخوبی واقف تھے،اس لیےآپ خود بھی اچھے نام سے اچھا تصور اور نیک شگون لیتے تھے، اور نامناسب معنی والےنام کو پسند نہیں فرماتے تھے،کیوں کہ اس میں امکان ہوتا تھا کہ  ذم کاپہلو ہونے کی وجہ سے کسی کو بدشگونی کا موقع ملے اوراس کی وجہ سے  اس نام کے حامل شخص کو سرِعام ناگوار ی کا سامنا کرنا پڑے یا کہیں اس کی رسوائی  ہوجائے،چناں چہ  حضرت بریدہ  رضی اللہ عنہ فرماتےہیں:رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کسی چیز سے فال نہیں لیتے تھے، لیکن جب کسی شخص کو کسی خاص مہم پر روانہ فرماتے تو اس کا نام دریافت فرماتے،اگرنام اچھا ہوتا تو خوشی کا اظہار فرماتے، اور وہ خوشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرۂ مبارک پر دیکھی جاتی تھی، اور اگر نام اچھا نہ ہوتا تو ا س کی کراہیت کے آثارآپ کے چہرۂ مبارک پر نظر آنے لگتے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ برے نام کو (اچھے نام سے )تبدیل کر دیا کرتے تھے،چناں چہ برے معنی والے ناموں کے بارے میں آپ کا یہی طرزِ عمل دیکھا گیا کہ ایسے ناموں کو ناپسند فرماتے تھے،چناں چہ اسی ناپسندیدگی کے پیشِ نظر اور دوسری حکمتوں کی خاطر رسول اللہ ﷺ نے بہت سے نام نیک فال اور استحباب کے طور پر تبدیل بھی فرمائے۔

اسی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے بھی اپنے بچوں کے ناموں کا انتخاب کیا، ان کے نام نیک فالی پر مبنی اور اعلی کردار والی شخصیتوں پر رکھے، چناں چہ  صحابی رسول حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے  بچوں کے نام شہداء کے ناموں پر رکھنے کی وجہ پوچھی تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے بہادر بنیں اور اللہ کے راستہ میں شہید ہوں۔

تاہم   ان سب کے باجود رسول اللہ ﷺنے نام کا تعلق نہ توتقدیر سے جوڑا، اورنہ ہی اس کی شخصیت ،مزاج،صحت اوراچھے برے اعمال کو مطلقاً نام کے اثرات کے تابع قرار دیا،اس لیے کہ  نام کے معنی کا مسمی کی ذات میں مؤثر ہونا کوئی  کلی ضابطہ نہیں ہے،اورنہ ہی ایساہونا ضروری ہے کہ اگر کسی کے نام میں معنوی حسن موجود نہیں ہے تو اسے لازماً تبدیل کردیاجائے، چناں چہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض کے اسمائےگرامی، جن میں معنوی حسن نہیں ہے،آپ ﷺ نے  ان کے نام تبدیل نہیں فرمائے، بلکہ برقرار رکھے،جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نام  کے معنی کا مسمی  پراثر پڑنا ضروری نہیں ہے، ان میں سے چند نام یہ ہیں: جیسے عباس،مُصْعَب، حُذَیفہ، اُویس،حنظلہ،عِکرمہ ، وکیع، قُتیبہ ، مِسوَر، عکاشہ، عَلقَمہ، عوف،جندل،ضرار،خدیجہ وغیرہ۔چناں چہ  نسبت سے عقیدت کی وجہ سے امت میں یہ نام رکھنے کی روایت ہمیشہ سےموجود رہی ہے ، کیوں کہ اکابر کے نام پر نام رکھنے میں نسبت کی فضیلت کا حاصل کرنا مقصود ہوتاہے،معنی ملحوظ نہیں ہوتے، نیز یہ فطری بات ہے کہ  اچھی سوچ، فکر،اور اچھی امید کا اثرہوتا ہے،اوربری سوچ،فکر،اورناامیدی کاوبال آتاہے،چناں چہ  حدیث ِقدسی ہے کہ  میں اپنے بندے کے بارے میں میرے متعلق گمان کے مطابق اس کے متعلق فیصلہ کرتا ہوں ؛ اس لیے بندے کو چاہیے کہ میرے ساتھ اچھا گمان رکھے، اس سے معلوم ہوا کہ اچھا سوچنا اور کسی نام کا اچھا مطلب نکالنا شریعت کا عمومی سبق ہے،اور ناموں کو برے اخلاق ،مزاج و عادات کا سبب قرارد ینا درست نہیں۔

البتہ بعض بزرگانِ دین کا یہ عمل کہ وہ کسی کے  نام کو اس کی  صحت یا مزاج کے موافق نہ پا کر اسے بدل دینا تجویز کرتے ہیں، تو یہ ان کے تجربے کی روشنی میں اور تدبیر کے درجے میں ایک عمل ہے، اور اس کی حیثیت علاج کی سی ہے، ہر شخص کا اس کی حقیقت پر مطلع ہونا ضروری نہیں  ، اسی طرح اس  تدبیر کا ہر وقت کارگر ہونا بھی لازم نہیں ہے۔

باقی حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی  مذکورہ روایت میں ان کے قول "فما زالت الحزونة فينا بعد" کا مطلب جو شراح  : حدیث نے خود آپ رحمہ اللہ  سے نقل فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ  سعید رحمہ اللہ کے دادا کےنام (یعنی حَزن) کو رسول اللہ ﷺ نے ناپسند فرمایا تھااور کسی مصلحت و حکمت کے تحت  اس نام کو بدلنے کی ترغیب دی تھی،لیکن انہوں نے اپنانام تبدیل نہیں کیا،تو رسول اللہ ﷺ کےاس نام کو ناگوار محسوس کرنے اور ان کے دادا کا نبی کریم ﷺ کو اپنا نام تبدیل کرنے سے انکار کرکے،خود اپنے لیے پیدا ہونے والی آسانی اور سہولت کو  ختم کرنے  کا اثر یہ ہوا کہ( من جانب اللہ بطور تنبیہ و تادیب کے) ان کے خاندان میں   سختی اور مزاج میں درشتی باقی رہی،یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ اثر یقیناً  ان کے نام کی وجہ سے ہی  پیدا ہواتھا،(اور اگر نام کی وجہ سے بھی یہ اثر پیدا ہوا ہو تب بھی انکار کی ضرورت نہیں کیوں کہ من وجہ ٍ نام کا اثر ظاہر ہونا درست ہے)۔

شرح سنن ابی داؤد لابن رسلان میں ہے:

"(قال: لا) أغير اسم أبي؛ لأن (السهل) من الأرض (يوطأ) بالمشي فيه بالنعال والدواب وغيرها (ويمتهن) أي: يداس ويبتذل من المهنة، قاله في "النهاية"، أي: يقصد السهل من الطريق والأرض للمشي فيها والتردد فيها لسهولة ذلك، بخلاف الأرض الخشنة اليابسة الصعبة السلوك، وفي دعائه صلى الله عليه وسلم: "اللهم لا سهل إلا ما جعلته سهلًا، وأنت تجعل الحزن إذا شئت سهلًا"يعني: للمشي فيه.

(قال سعيد) بن المسيب ([فظننت] أنه سيصيبنا بعده) أي: يصيب أولاد حزن وذريته ونسله وعقبه من بعد قوله النبي صلى الله عليه وسلم له ذلك، أو بعد موته (حزونة) أي: صعوبة وخشونة. أي: علمت أنه سيحصل له ولنا من بعده الصعوبة والتعسير في أمورنا وأحوالنا؛ عقوبة مخالفة ما اختاره له من السهولة في الأمور، وهكذا ينبغي أن يكون التلميذ مع شيخه والولد مع والده، لا يخالفه فيما يشيره عليه، بل يأخذه بالقبول وإن لم يفهم حكمته، فقد ظهر لكثير من مخالفي المشايخ من العلماء والصوفية وغيرهم بالمخالفة فساد كثير."

(كتاب الأدب، باب في تغييرالإسم القبيح، ج:19، ص:63، ط:دارالفلاح)

شرح مصابیح السنہ  للبغوی میں ہے:

"عن بريدة: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يتطير من شيء، فإذا بعث عاملا يسأل عن اسمه، فإذا أعجبه اسمه فرح به ورئي بشر ذلك في وجهه، وإن كره اسمه رئي كراهية ذلك في وجهه"، فالسنة أن يختار الإنسان لولده وخادمه الأسماء الحسنة، فإن الأسماء المكروهة قد توافق القدر، مثلا لو سمى أحد ابنه بـ (خسار) فربما جرى قضاء الله بأن يلحق بذلك المسمى به خسار، فيعتقد بعض الناس: أن ذلك بسبب اسمه فيتشاءمون به، ويحترزون عن مجالسته ومواصلته."

(كتاب الطب والرقى، ج:5، ص:122، ط:دار المعرفة)

فتح الباری میں ہے:

"قال بن بطال في هذه الأحاديث جواز ‌التسمية ‌بأسماء ‌الأنبياء وقد ثبت عن سعيد بن المسيب أنه قال أحب الأسماء إلى الله أسماء الأنبياء... قال ويقال إن طلحة قال للزبير أسماء بني أسماء الأنبياء وأسماء بنيك أسماء الشهداء فقال أنا أرجو أن يكون بني شهداء وأنت لا ترجو أن يكون بنوك أنبياء فأشار إلى أن الذي فعله أولى من الذي فعله طلحة."

(كتاب الأدب، قوله باب من سمى بأسماء الأنبياء، ج:10، ص:578،579،580، ط:دارالمعرفة)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"إنهم كانوا يسمون بأنبيائهم والصالحين قبلهم) استدل به جماعة على جواز ‌التسمية ‌بأسماء ‌الأنبياء عليهم السلام وأجمع عليه العلماء... وقد سمى النبي صلى الله عليه وسلم ابنه إبراهيم وكان في أصحابه خلائق مسمون بأسماء الأنبياء."

(كتاب الآداب، باب من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، ج:14، ص:117، ط:دار إحياء التراث العربي)

علامہ ابن قیم جوزی رحمہ اللہ زاد المعاد میں   نام کے مسمی  کی شخصیت پر مؤثر ہونے کے حوالے سے   تفصیلی کلا م کیا ہے،متعلقہ مسئلے سے مناسبت اور اتمام ِ فائدہ کی غرض سے  اس میں سے کچھ بحث ذیل میں ذکر کی جاتي ہے،ملاحظہ ہو:

"لمَّا كانت الأسماء قوالبَ للمعاني ودالَّةً عليها، اقتضت الحكمة أن يكون بينها وبينها ارتباطٌ وتناسبٌ، وأن لا تكون معها بمنزلة الأجنبيِّ المحض الذي لا تعلُّقَ له بها، فإنَّ حكمة الحكيم تأبى ذلك، والواقع يشهد بخلافه، بل للأسماء تأثيرٌ في المسمَّيات، وللمسمَّيات تأثُّرٌ عن أسمائها في الحسن والقبح، والخفَّة والثِّقل، واللَّطافة والكثافة، كما قيل :وقَلَّ أن أبصرتْ عيناك ذَا لقبٍ… إلا ومعناه إن فكَّرتَ في لقبِهْ وكان النبي صلى الله عليه وسلم يستحبُّ الاسم الحسن، وأمر إذا أَبردوا إليه بريدًا أن يكون حسنَ الاسم حسنَ الوجه.

وكان يأخذ المعاني من أسمائها في المنام واليقظة، كما رأى أنَّه وأصحابه في دار عُقبة بن رافع، فأُتُوا برُطَبٍ من رُطَبِ ابن طابَ، فأوَّله بأنَّ العاقبة لهم في الدُّنيا، والرفعة في الآخرة، وأنَّ الدِّين الذي اختاره الله لهم قد أرطبَ وطابَ. وتأوَّل سهولة أمرهم يوم الحديبية من مجيء سهيل بن عمرٍو إليه. وندب جماعةً إلى حلب شاةٍ، فقام رجلٌ يحلُبها، فقال: «ما اسمك؟»، قال: مُرَّة، فقال: «اجلسْ»، فقام آخر، فقال: «ما اسمك؟»، قال ــ أظنُّه ــ حرب، فقال: «اجلس»، فقام آخر، فقال: «ما اسمك؟»، فقال: يعيش، فقال: «احلبها».

وكان يكره الأمكنة المنكرة الأسماء ويكره العبور فيها، كما مر في بعض غزواته بين جبلين، فسأل عن اسميهما، فقالوا: فاضح ومُخزي، فعدل عنهما، ولم يجز بينهما.

ولما كان بين الأسماء والمسميات من الارتباط والتناسب والقرابة ما بين قوالب الأشياء وحقائقها، وما بين الأرواح والأجسام، عبر العقل من كل منهما إلى الآخر، كما كان إياس بن معاوية وغيره يرى الشخص، فيقول: ينبغي أن يكون اسمه كيت وكيت، فلا يكاد يخطئ. وضد هذا العبور من الاسم إلى مسماه كما سأل عمر بن الخطاب رجلا عن اسمه، فقال: جمرة، فقال: واسم أبيك؟ قال: شهاب، قال: فمنزلك؟ قال: بحرة النار، قال فأين مسكنك؟ قال: بذات لظى، قال: اذهب فقد احترق مسكنك، فذهب فوجد الأمر كذلك. فعبر عمر رضي الله عنه من الألفاظ إلى أرواحها ومعانيها، كما عبر النبي صلى الله عليه وسلم من اسم سهيل إلى سهولة أمرهم يوم الحديبية، فكان الأمر كذلك.

وقد أمر النبي صلى الله عليه وسلم أمته بتحسين أسمائهم، وأخبر أنهم يدعون يوم القيامة بها. وفي هذا ــ والله أعلم ــ تنبيه على تحسين الأفعال المناسبة لتحسين الأسماء؛ لتكون الدعوة على رؤوس الأشهاد بالاسم الحسن والوصف المناسب له.

وتأمل كيف اشتق للنبي صلى الله عليه وسلم من وصفه اسمان مطابقان لمعناه، وهما أحمد ومحمد، فهو لكثرة ما فيه من الصفات المحمودة محمد، ولشرفها وفضلها على صفات غيره أحمد، فارتبط الاسم بالمسمى ارتباط الروح بالجسد. وكذلك تكنيته صلى الله عليه وسلم لأبي الحكم بن هشام بأبي جهل كنية مطابقة لوصفه ومعناه، وهو أحق الخلق بهذه الكنية. وكذلك تكنية الله لعبد العزى بأبي لهب؛ لما كان مصيره إلى نار ذات لهب كانت هذه الكنية أليق به وأوفق، وهو بها أحق وأخلق.

ولما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة ــ واسمها يثرب، لا تعرف بغير هذا الاسم ــ غيره بطيبة؛ لما زال عنها ما في لفظ «يثرب» من التثريب بما في معنى «طيبة» من الطيب، استحقت هذا الاسم، وازدادت به طيبا آخر، فأثر طيبها في استحقاق الاسم، وزادها طيبا إلى طيبها.

ولما كان الاسم الحسن يقتضي مسماه ويستدعيه من قرب، قال النبي صلى الله عليه وسلم لبعض قبائل العرب وهو يدعوهم إلى الله وتوحيده: «يا بني عبد الله، إن الله قد حسن اسمكم واسم أبيكم». فانظر كيف دعاهم إلى عبودية الله بحسن اسم أبيهم وبما فيه من المعنى المقتضي للدعوة. وتأمل أسماء الستة المتبارزين يوم بدر كيف اقتضى القدر مطابقة أسمائهم لأحوالهم يومئذ، فكان الكفار شيبة وعتبة والوليد، ثلاثة أسماء من الضعف، فالوليد له بداية الضعف، وشيبة له نهايته، كما قال تعالى: {الله الذي خلقكم من ضعف  ثم جعل من بعد ضعف قوة ثم جعل من بعد قوة ضعفا وشيبة} [الروم: 54]، وعتبة من العتب، فدلت أسماؤهم على عتب يحل بهم وضعف ينالهم. وكان أقرانهم من المسلمين علي وعبيدة والحارث، ثلاثة أسماء تناسب أوصافهم، وهي العلو والعبودية والسعي الذي هو الحرث، فعلوا عليهم بعبوديتهم وسعيهم في حرث الآخرة.

ولما كان الاسم مقتضيا لمسماه ومؤثرا فيه، كان أحب الأسماء إلى الله ما اقتضى أحب الأوصاف إليه، كعبد الله وعبد الرحمن، وكان إضافة العبودية إلى اسم الله واسم الرحمن أحب إليه من إضافتها إلى غيرهما من الأسماء، كالقاهر والقادر، فعبد الرحمن أحب إليه من عبد القادر، وعبد الله أحب إليه من عبد ربه...

فصل: ولما كان مسمى الحرب والمرارة أكره شيء للنفوس وأقبحها عندها، كان أقبح الأسماء حربا ومرة، وعلى قياس هذا حنظلة وحزن وما أشبههما، وما أجدر هذه الأسماء بتأثيرها في مسمياتها، كما أثر اسم حزن الحزونة في سعيد وأهل بيته.

فصل: ولما كان الأنبياء سادات بني آدم، وأخلاقهم أشرف الأخلاق، وأعمالهم أصلح الأعمال كانت أسماؤهم أشرف الأسماء، فندب النبي صلى الله عليه وسلم أمته إلى التسمي بأسمائهم، كما في «سنن أبي داود والنسائي» عنه: «تسموا بأسماء الأنبياء». ولو لم يكن في ذلك من المصالح إلا أن الاسم يذكر بمسماه ويقتضي التعلق بمعناه لكفى به مصلحة، مع ما في ذلك من حفظ أسماء الأنبياء وذكرها، وأن لا تنسى، وأن تذكر أسماؤهم بأوصافهم وأحوالهم.

(‌‌فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الأسماء والكنى، ج:2، ص:401-408، ط:دار ابن حزم)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے:

"الفصل التاسع في بيانِ ارتباطِ معنَى الاسمِ بالمسَمَّى. وقد تقدم ما يدلُّ على ذلك من وجوه:

أحدهما: قول سعيد بن المسيّب: ما زالت فينا تلك الحزونة. وهي التي حصلت من تسمية الجد بحزن. وقد تقدم قول عُمر لِجَمْرَةَ بنِ شِهَابٍ: أدركْ أهلَك فقدِ احترقُوا. ومنع النبيُّ صلى الله عليه وسلم مَن كان اسمه حربًا أو مُرَّة أن يحلب الشَّاة تلك التي أراد حَلْبَهَا. وشواهدُ ذلك كثيرةٌ جدًّا، فقلَّ أنْ تَرى اسمًا قبيحًا، إلا وهو على مسمَّى قبيحٍ... والله ـ سبحانه ـ بحكمته في قضائه وقدَره يُلْهِمُ النفوسَ أن تضعَ الأسماءَ على حسب مُسمَّياتها، لِتُناسِبَ حكمتَه تعالى بين اللفظ ومعناه، كما تناسبتْ بين الأسباب ومسبَّباتها.

قال أبو الفتح ابن جِنِّي: ولقد مرَّ بي دهرٌ وأنا أسمع الاسم، لا أدري معناه فآخذ معناه من لفظه، ثم أكشفه، فإذا هو ذلك بعينه أو قريب منه. فذكرت ذلك لشيخ الإسلام ابن تيمية ـ قدّس اللهُ روحَهُ ـ فقال: وأنا يقع لي ذلك كثيرًا. وقد تقدم قوله صلى الله عليه وسلم: "أسْلَمُ سَالمَها اللهُ، وغفارٌ غَفَرَ الله لها، وعُصيَّةُ عَصَتِ اللهَ ورسُولَهُ".

ولما أسلم وَحْشِيٌّ ـ قاتِلُ حَمزَة ـ وقف بين يدي النبيّ صلى الله عليه وسلم فَكَرِهَ اسْمَه وفِعْلَهُ وقال: "غيِّبْ وَجْهَكَ عنِّي" وبالجملة: فالأخلاقُ والأفعالُ القبيحةُ تستدعي أسماء تُناسبُها، وأضدادُها تستدعي أسماء تناسبها، وكما أنَّ ذلك ثابت في أسماء الأوصاف، فهو كذلك في أسماء الأعلام، وما سُمِّيَ رسول الله صلى الله عليه وسلم: محمَّدًا وأَحْمَدَ إلا لكثرة خصال الحمد فيه، ولهذا كان لواء الحمد بيده، وأمتُه الحمَّادون، وهو أعظمُ الخلق حمدًا لربِّه تعالى، ولهذا أَمَرَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم بتحسين الأسماء، فقال: "حَسِّنُوا أسْمَاءَكُمْ"، فإن صاحب الاسم الحَسَن قد يستحي من اسمه، وقد يحمله اسمه على فعل ما يناسبه وترك ما يضادُّه، ولهذا ترى أكثرَ السُّفْلِ أسماؤهم تناسبهم، وأكثر العلية أسماؤهم تناسبهم، وبالله التوفيق."

(الفصل التاسع في بيانِ ارتباطِ معنى الإسمِ بالمسَمَّى، ص:211،212،213، ط:دار إبن حزم)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں