بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا میں اپنے بیٹے کا نام محمد افلح رکھ سکتی ہوں؟


سوال

کیا میں اپنے بیٹے کا نام محمد افلح رکھ سکتی ہوں ایک حدیث میں آج پڑھا کہ نبی پاک نے افلح نام رکھنے سےمنع فرمایا ہے؟

جواب

  "محمد"  کا معنی ہے :تعریف کیا ہوااور"افلح"كا  معنی ہے :كامياب ہوا،صورت مسئولہ میں محمد نام رکھنا درست ہے ،البتہ حدیث میں"افلح" نام رکھنے سے  منع کیاگیاہے اورشراح حدیث نے وجہ یہ بیان کی ہےکہ بعض مرتبہ یہ بدفالی کا سبب بنتاہے مثال کے طورپراگر کسی شخص نے افلح نام رکھااورکسی وقت گھر والوں سے پوچھا کہ یہاں افلح ہے ؟ گھروالوں نے جواب دیا کہ گھر میں افلح  نہیں ہے تو اگر چہ اس صورت میں متعین ذات مراد ہوگی مگر لفظ افلح  کے حقیقی  معنی کے اعتبارسے مفہوم  یہ ہوگاکہ گھر میں کامیابی اورنجات  نہیں  ہے اوراس طرح کہنا برائی کی بات ہےلہذا بہتریہ ہے  کہ افلح نام کی جگہ کوئی دوسرااچھانام رکھاجائے۔

نیزہماری ویب سائٹ پر اسلامی ناموں کے سیکشن میں بچوں اور بچیوں کے بہت سے منتخب اسلامی نام موجود ہیں، جنس اور حرف منتخب کرکے نام کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

مشكاة شريف ميں ہے:

"وعن سمرة بن جندب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تسمين غلاما يسارا ولا رباحا ولانجيحا ولا ‌أفلح فإنك تقول: أثم هو؟ فلا يكون فيقول لا " رواه مسلم. وفي رواية له قال: لا تسم غلاما رباحا ولا يسارا ولا ‌أفلح ولا نافعا."

(الفصل الأول،ج:3،ص:1344،رقم الحديث:4753،ط:المكتب الإسلامي،بيروت)

مظاہر حق میں ہے:

ترجمہ:"اورحضرت سمرہ ابن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے غلام کا نام یسار،رباح،نجیح اورافلح نہ رکھو کیوں کہ اگر کسی وقت تم نے کسی شخص سے پوچھاکہ کیا وہ ( مثلاً)یساریا رباح یہاں ہے اور( فرض کرو) وہ وہاں نہ ہوا تو جواب دینے والا کہے گا کہ وہ ( یعنی یسار یا رباح ) یہاں نہیں ہے ،اورمسلم ہی کی ایک اور روایت میں میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنے غلام کا نام،رباح یسار،افلح اورنافع نہ رکھو"۔

تشریح:یسار ،یسر سے ہے جس کے معنی فراخی اورتونگری کے ہیں ،رباح،ربح سے ہے جس کے معنی فائدہ اورنفع کے ہیں،نجیح  ،نجح سے ہے  جس کے معنی فتحمندی یامطلب یابی کے ہیں،افلح ،فلاح سے ہے جس کے معنی کامیابی اورنجات کے ہیں ، اور نافع نفع سے ہے جس کے معنی فائدہ کے ہیں ۔

حدیث کا مطلب یہ ہے : کہ اس طرح کے نام رکھنے ممنوع ہیں کیو نکہ  مثال کے طورپراگر کسی شخص نے یسار نام رکھااورکسی وقت گھر والوں سے پوچھا کہ یہاں یسارہے ؟ گھروالوں نے جواب دیا کہ گھر میں یسار نہیں ہے تو اگر چہ اس صورت میں متعین ذات مراد ہوگی مگر لفظ یسار کے حقیقی  معنی کے اعتبارسے مفہوم  یہ ہوگاکہ گھر میں فراخی وتونگی  نہیں  ہے اوراس طرح کہنا برائی کی بات ہے اس پر دوسرے مذکورہ  بالاالفاظ کو بھی قیاس کیاجاسکتا ہے ۔

مسلم کی دوسری  روایت میں  نجیح  کے بجائے نافع کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ ممانعت کا تعلق محض انہی  ناموں سے نہیں ہے بلکہ اوردوسرے نام بھی جو ان الفاظ کے معنی  میں ہوں، یہی حکم رکھتے ہیں ۔

امام نووی -رح-فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے کہا ہے کہ اس طرح کے نام رکھنے مکروہ تنزیہی  ہیں نہ کہ مکروہ تحریمی ۔"

(چند ممنوع نام،ج:4،ص:378،ط:دار الاشاعت) 

مرقاة المفاتيح ميں ہے :

"(وعن سمرة بن جندب - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تسمين) أي: ألبتة أيها المخاطب، بالخطاب العام (غلامك) أي: صبيك أو عبدك (يسارا) : من اليسر ضد العسر (ولا رباحا) : بفتح الراء من الربح ضد الخسارة (ولا نجيحا) : من النجح وهو الظفر (ولا أفلح) : من الفلاح وهو الفوز (فإنك تقول) أي: أحيانا (أثم) : بفتح المثلثة وتشديد الميم بتقدير استفهام أي: أهناك (هو؟) أي: المسمى بأحد هذه الأسماء المذكورة (فلا يكون) أي: فلا يوجد هو في ذلك المكان اتفاقا (فيقول) أي: المجيب (لا) أي: ليس هناك يسار، أو لا رباح عندنا، أو لا نجيح هناك، أو لا أفلح موجود، فلا يحسن مثل هذا في التفاؤل، أو فيكره لشناعة الجواب: في شرح السنة: معنى هذا: أن الناس يقصدون بهذه الأسماء التفاؤل بحسن ألفاظها أو معانيها، وربما ينقلب عليهم ما قصدوه إلى الضد إذا سألوا فقالوا: أثم يسار أو نجيح؟ فقيل: لا، فتطيروا بنفيه وأضمروا اليأس من اليسر وغيره، فنهاهم عن السبب الذي يجلب سوء الظن والإياس من الخير. قال حميد بن زنجويه: فإذا ابتلي رجل في نفسه أو أهله ببعض هذه الأسماء فليحوله إلى غيره، فإن لم يفعل وقيل: أثم يسار أو بركة؟ فإن من الأدب أن يقال: كل ما هنا يسر وبركة، والحمد لله، ويوشك أن يأتي الذي تريده، ولا يقال ليس هنا ولا خرج والله أعلم. (رواه مسلم. وفي رواية له) : أي: لمسلم (قال: لا تسم غلامك رباحا ولا يسارا ولا نافعا) : في شرح مسلم للنووي، قال أصحابنا: يكره التسمي بالأسماء المذكورة في الحديث، وما في معناها وهي كراهة تنزيه لا تحريم، والعلة فيه ما نبه - صلى الله عليه وسلم - بقوله: أثم هو؟ فيقول: لا، فكره لشناعة الجواب."

(باب الأسامي،ج:7،ص:2997،رقم الحديث:2997،ط:دار الفكر، بيروت،لبنان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں