بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ میں سے مخصوص فیصد صدقہ کرنے کی نیت سے صدقہ واجب نہیں ہوگا


سوال

میں نے ارادہ کیا تھا کہ جو تنخواہ آئے گی اس میں سے دس فی صد صدقہ کروں گا، اب یہ صدقہ، صدقہ واجبہ ہو گا یا نفلی ہو گا؟ اور اگر نفلی ہو گا تو اپنی بیوی کو جیب خرچ اس صدقہ کے پیسوں میں سے دے سکتا ہوں؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں   سائل نے جو تنخواہ میں سے دس فیصد خرچ کرنے  کا ارادہ کیا ہے، یہ شرعاً نفلی صدقہ  ہے،اور نفلی صدقہ  بندہ اپنی بیوی اور اہل عیال پر بھی خرچ  کرسکتاہے۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وركنه عند الحنفية: هو الصيغة الدالة عليه مثل قول الشخص: (لله علي كذا) و (علي كذا) أو (علي نذر) أو (هذا هدي) أو (صدقة) أو (مالي صدقة) أو (ما أملك صدقة) ونحوها ."

(الباب السادس، الفصل الثاني،ج: 4،ص:552،ط:دارالفکر بیروت)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  أفضل ‌دينار ‌ينفقه الرجل، دينار ينفقه على عياله، ودينار ينفقه الرجل على دابته في سبيل الله، ودينار ينفقه على أصحابه في سبيل الله."

(كتاب الزكاة، باب فضل النفقة على العيال والمملوك، وإثم من ضيعهم أو حبس نفقتهم عنهم، ج: 2، ص: 691، ط: دار إحياء التراث العربي)


 ترجمہ:"حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"  جب مسلمان اپنے اہل پر کوئی خرچہ کرتا ہے اور نیت ثواب کی ہوتی ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں