بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نعلین پاک کے نقش پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھنا


سوال

آج کل کچھ لوگ نعلین پاک پر  حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھتے ہیں تو میں ایک اہل حدیث عالم کا بیان سن رہا تھا وہ کہہ رہے تھے کہ یہ بے ادبی ہے ، تو میں یہ جاننا چاہتا ہو کہ نعلین پاک پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھنا کیسا ہے۔

جواب

رسول اللہ ﷺ  کے وہ  آثارِ متبرکہ  جو آپ ﷺ کے زیر استعمال رہے ہوں یا آپ ﷺ کے جسمِ اطہر سے مس ہوئے ہوں، ان سے تبرک (برکت حاصل کرنا) جائز اور سعادت کی بات ہے، لیکن صرف  نعل مبارک کی صورت اور نقش بنانا  اور اس  کےساتھ اصل نعل مبارک کا معاملہ کرنا اور اس سے تبرک حاصل کرنا احکام شرعیہ سے ثابت نہیں ہے، تاہم اگر  کوئی شخص  اصل کے ساتھ مشابہت اورمشاکلت کی وجہ سے فرطِ محبت میں نعل مبارک کے نقش کو بوسہ دیتا ہے  تو   یہ مباح ہے، بشرط یہ کہ اس میں کوئی اور شرعی قباحت نہ پائی جائے، بہر صورت  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی نعل مبارک ہو ں یا   اس   نعل مبارکہ کا نقشہ بناکر اس کے مشابہ کوئی نعل کی  صورت بنائی جائے،  اس پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ِ مبارک لکھنا بے ادبی ہے، اس سے احتراز ضروری ہے۔

 مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں  تحریر فرماتے ہیں:

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار متبرکہ طیبہ سے برکت حاصل کرنا تو علماء متقدمین اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین  رحمہم اللہ سے ثابت ہے، لیکن  آثار و اشیاء متبرکہ سے مراد یہ ہے کہ ان چیزوں کے متعلق یہ بات ثابت ہو کہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کی  ہوئی اشیاء ( مثل جبہ مبارک یا قمیص مبارک یا نعل مبارک) یا حضور کے جسم اطہرکے اجزاء ( مثل موئے مبارک) یا حضور کے جسم اطہر کے ساتھ مس کی ہوئی  چیزیں ہیں ( مِثل اس خاص پتھر کے جس پر قدم مبارک رکھنے سے نشان قدم بن گیا ہو)، لیکن ان میں سے کسی  چیز کی تصویر بناکر اس سے برکت حاصل کرنے کا معتمد اہل علم وارباب تحقیق   سے ثبوت نہیں۔

اگر  تصویر سے تبرک حاصل کرنا بھی صحیح ہو تو پھر نعل مبارک کی کوئی تخصیص نہ ہوگی ،بلکہ جبہ مبارک،  قمیص شریف، موئے مبارک اور قدم شریف کی کاغذ پر تصویر بنانے اور ان سے تبرک و توسل کرنے کا حکم اور نقشہ نعل مبارک سے تبرک و توسل کا حکم ایک ہوگا اور  ایک ماہر بالشریعۃ اور ماہر نفسیات اہل زمانہ اس کے نتائج سے بے خبر نہیں رہ سکتا، جن بزرگوں نے نعل مبارک  کے نقش کو سر پررکھا، بوسہ دیا، اس سے توسل کیا وہ ان کے  وجدانی  اور انتہائے محبت بالنبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے اضطراری افعال ہیں ان  کو تعمیمِ حکم اور تشریع  للناس کے موقع پر  استعمال کرنا صحیح نہیں ۔

نیز  اس امر کا بھی کوئی ثبوت  نہیں کہ نعل مبارک کا یہ نقشہ فی الحقیقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نعل  مبارک کی صحیح تصویر ہے ،یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کے درمیانی پٹھے ( شراک)  کے وسط میں  اور آگے کے تسموں( قبالین) پر ایسے ہی پھول اور نقش و نگار بنے تھے جیسے اس نقشے میں بنے ہوئے ہیں اور بلا ثبوت صورت و ہئیت کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا بہت خوفناک امر ہے، اندیشہ ہے کہ "من کذب علي متعمدًا الخ" کے  مفہوم کے  عموم میں شامل نہ ہوجائے  ،کیونکہ اس  ہئیت کے ساتھ  اس کو مثال نعل مصطفی قرار دینے کا ظاہر مطلب یہی ہے کہ اس کو مثال قرار دینے والا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نعل مبارک استعمال کی تھی جس کے پٹھوں اور اگلے تسموں پر اس قسم کے پھول بنے تھے اور اس طرح کے نقش و نگار بھی تھے ۔۔۔ بہرحال تصویر کو اصل کا منصب دینا اور اس کے ساتھ اصل کا معاملہ کرنا احکام شرعیہ سے ثابت نہیں، اگر حضور ﷺ  کی نعل مبارک  جو حضور ﷺ کے قدم مبارک سے مس کرچکی ہو کسی کو مل جائے تو زہے سعادت، اس کو بوسہ دینا سر پر رکھنا سب صحیح  ،مگر نعل کی تصویر اور وہ بھی  ایسی تصویر جس کی اصل سے مطابقت کی بھی کوئی دلیل نہیں، اصل نعل مبارک کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔‘‘

(کفایت المفتی، کتاب السلوک والطریقہ، فصلِ سوم: توسل، 90-2/89، ط: دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101540

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں