بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناخن کاٹنے کی مقدار اور چالیس دن تک ناخن نہ کاٹنے کا حکم


سوال

پاک ہوتے وقت ناخن پورے کاٹنے لازمی ہیں؟ اگر اوپر سے تھوڑے بہت کاٹ لیے جائیں تو اس سے ناپاکی رہے گی؟ 40 دن بعد ناخن جیسے کاٹنے چاہییں تو اس میں بھی پورے نا کاٹنے سے کیا ہوگا کیا انسان پاک نہیں رہے گا؟ 

جواب

واضح رہے کہ ناخن کاٹنا اُن اعمال میں سے ہے جن کو فطرتِ  سلیمہ کے تقاضوں میں شمار کیا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ پانچ چیزیں انسان کی فطرتِ سلیمہ کے تقاضے اور دینِ فطرت کے خاص اَحکام ہیں: ختنہ ، زیرِ ناف بالوں کی صفائی ، مونچھیں تراشنا ، ناخن لینا اور بغل کے بال لینا۔

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے واسطے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ 40روز سے زیادہ نہ چھوڑیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام جمعہ کی نماز میں جانے سے پہلے ناخن تراش لیا کرتے تھے ۔

لہٰذا ناخن کاٹنے کے حوالے سے مسنون ہے کہ ہر جمعہ کے دن ناخن خاٹ لیے جائیں یا ہر جمعہ کسی وجہ سے نہ کاٹ سکیں تو  پورے ہفتے میں کسی بھی دن کاٹ لیے جائیں ۔

ورنہ پندرہ دن میں کاٹ لیے جائیں  اور نہ کاٹنے کی زیادہ سے زیادہ حد 40 دن ہیں کہ چالیس دن تک ناخن نہ کاٹنا مکروہ تحریمی ہے۔

اب ناخن کاٹنے کی مقدار کیا ہونی چاہیے تو واضح رہے کہ ناخن کاٹنے کے حوالے سے احادیث طیبہ میں "تقلیم الأظفار"کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ناخن کاٹنے کے ہیں اور ان احادیث کی تشریح کرتے ہوئے محدثینِ عظام نے لکھا ہے کہ ناخن اس قدر کاٹنے چاہییں کہ انگلیوں میں تکلیف محسوس نہ ہو، یعنی جس قدر کاٹے جاسکیں کاٹ لیے جائیں، ایسا نہ ہو کہ کچھ کاٹ لیے باقی چھوڑ دیے، چنانچہ علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"والتقلیم تفعیل من الْقَلَم وَهوَ الْقطع، وَوَقع فِي حَدِیث الْبَاب فِي رِوَایَة: وقص الْأَظْفَار، والأظفار جمع ظفر بِضَم الظَّاء وَالْفَاء وسکونها، وَحکی عَن أبي زید کسر الظَّاء وَأنْکرہُ ابْن سَیّدہ، وَقد قیل: إِنَّه قِرَائَة الْحسن وَعَن أبي السماک أَنه قریء بِکَسْر أَوله وثانیه، وَیسْتَحب الِاسْتِقْصَاء فِي إِزَالَتہَا بِحَیْثُ لَا یحصل ضَرَر علی الإصبع."

(عمدة القاري :۷۰/۲۲، باب تقلیم الأظفار ، ط: دار الكتب العلمية بيروت) 

مذکورہ بالا تمہیدی نوٹ سے مندرجہ ذیل باتیں سمجھ آئیں:

1۔ ناخن کاٹنے کا مسنون وقت تو جمعہ کا مبارک دن ہے جب کہ ہفتے میں کسی بھی دن ناخن کاٹے جا سکتے ہیں، اور ناخن چالیس دن تک نہ کاٹنا مکروہ تحریمی ہے۔

2۔ ناخن کاٹنے کی مقدار کے حوالے سے احادیثِ مبارکہ میں مطلق الفاظ وارد ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ناخن پورے کے پورے کاٹنے چاہییں، کچھ کاٹ کر باقی کو چھوڑدینا درست نہیں ہے۔

3۔ اگر کچھ ناخن کاٹ کر کچھ چھوڑ بھی دیے جائیں اور  چالیس دن گزر جائیں  یا چالیس دن تک ناخن بالکل نہ کاٹے جائیں تو صرف اسی عمل سے انسان ناپاک نہیں ہوگا، بلکہ یہ عمل مکروہِ تحریمی ہے اور گناہ کا باعث ہے۔

صحيح مسلم (1/ 221):

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْفِطْرَةُ خَمْسٌ - أَوْ خَمْسٌ مِنَ الْفِطْرَةِ - الْخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ.

صحيح مسلم (1/ 222):

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: - قَالَ أَنَسٌ -: «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205200749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں