ایک لڑکی کا نکاح اس کے گھر والوں نے اس کی مرضی کے خلاف کردیا، لڑکی گھر والوں کے دباؤ پر خاموش رہی، لیکن اس کے بقول وہ راضی نہیں تھی، لیکن گھر والوں کے آگے انکار نہیں کر سکی تو اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہو گی ؟اس نے رشتہ نبھانے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے بقول وہ آج بھی شوہر کو دل سے قبول نہیں کر سکی ،آج وہ پریشان ہے کہ اس کا شرعی نکاح ہوا ہے کہ نہیں ؟ اگر نکاح کے تمام مسائل پر راہ نمائی مل سکے تو مہربانی ہوگی ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر لڑکی نے نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح کی اجازت دے دی تھی تو مذکورہ نکاح شرعی طور پر منعقد ہو چکا ہے ، لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو دل سے قبول کرے اور شوہر کے تمام جائز حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔
نیز نکاح کے مسائل کے لیےکسی اردو کتاب کا مطالعہ کریں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر.(قوله: من أحدهما) أشار إلى أن المتقدم من كلام العاقدين إيجاب سواء كان المتقدم كلام الزوج، أو كلام الزوجة والمتأخر قبول ح عن المنح."
وفيه أيضًا.
" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معًا)".
(کتاب النکاح، ج: ۳، صفحہ: ۹ و۲۱، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102278
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن