بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجدید نکاح کا گواہ کو پہلے علم نہ تھا کہ دونوں میں طلاق ہوچکی ہے پھر بھی نکاح درست ہوا


سوال

زید نےاپنی بیوی کو ایک طلا ق بائن دی تھی،طلاق کے کچھ دنوں بعدزید نے اپنی بہن ،بھانجی(دونوں عاقل وبالغ ہیں)اوراپنےسالےکوبٹھاکر ان کے سامنےاپنی بیوی سے کہا کہ"میں نے تین ہزار حق مہر شرعی کے عوض تجھ سے نکاح کیا ہے"،بیوی نے جواباً کہا"میں نے قبول کیا ہے"،دو دفعہ شوہر نے یہ الفاظ کہے اور دونوں دفعہ بیوی نے یہی جواب دیا تھا،اب مسئلہ یہ ہے کہ زید کے سالے اور بھانجی کو زید کے طلاق کے بارے میں  معلوم تھا اور انہیں معلوم تھا کہ انہیں یہ بات بطور گواہ سنائی جارہی ہےیابطور گپ شپ،جبکہ زید کی بہن کو طلاق  کے بارے میں نہیں بتا یا گیا تھا تاکہ وہ کسی کو بتا نہ دے ،اس لیے انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ انہیں یہ بات بطور گواہ سنائی جارہی ہے،تو اب سوال یہ ہے کہ کیا زید کا نکاح منعقد ہوچکا ہے یا نہیں ؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شرعاً نکاح کے منعقد ہونے کے لیے نکاح کے مجلس میں  شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا  ایجاب وقبول کا ہونا ضروری ہے،صورت مسئولہ میں چونکہ شرعی گواہوں کی موجودگی میں زید نے نکاح کا  ایجاب وقبول کیا ہے ؛لہٰذا مذکورہ نکاح شرعاً منعقد ہوگیاہے  اگرچہ ایک گواہ کو یہ علم نہ تھا کہ اس سے پہلے دونوں کا نکاح ٹوٹ چکا تھا۔

ہندیہ میں ہے:

"(وأما شروطه)۔۔۔(ومنها) سماع كل من العاقدين كلام صاحبه هكذا في فتاوى قاضي خان۔۔۔(ومنها) سماع الشاهدين كلامهما معا هكذا في فتح القدير۔۔۔ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين كذا في الهداية."

(كتاب النكاح،الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفتہ وركنہ وشرطہ وحكمہ،1/،267،ط:دارالفکر)

وفیہ ایضاً:

"ينعقد بالإيجاب والقبول وضعا للمضي أو وضع أحدهما للمضي والآخر لغيره مستقبلا كان كالأمر أو حالا كالمضارع، كذا في النهر الفائق."

(كتاب النكاح، الباب الثاني فيما ينعقد بہ النكاح وما لا ينعقد بہ،1/،270،ط:دارالفکر)

وفیہ ایضاً:

"ما يتحمله الشاهد على نوعين: نوع يثبت حكمه بنفسه بلا إشهاد كالبيع والإقرار وحكم الحاكم والغصب والقتل، فإذا سمع شاهد البيع والإقرار وحكم الحاكم، أو رأى الغصب والقتل وسعه أن يشهد، وإن لم يشهد عليه، ويقول أشهد أنه باع، ولا يقول: أشهدني لئلا يكون كاذبا."

(کتاب الشھادات،الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والامتناع عن ذلك،3/452،ط:دارالفکر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ،فصل فی حکم الطلاق البائن،3/187،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100495

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں