بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نجاست کا جسم سے خارج ہونے کی صورت میں طہارت کے لازم ہونے کی وجہ


سوال

اگر نجاست معدے میں ہو یا جسم میں جس طرح پاخانہ، پیشاب، خون وغیرہ تو جب تک وہ بدن میں ہیں تو نماز جائز ہوتی ہے، لیکن اگر وہی نجاست نکل کر باہر آ جاۓ تو اس سے طہارت لازم کیوں آتی ہے؟

جواب

ضابطہ یہ ہے کہ جب تک نجاست اپنے معدن اور مستقر میں ہو تو وہ ناپاک اور ناقضِ وضو نہیں ہوتی، لیکن جب وہ اپنے معدن اور مستقر سے نکل  کے ظاہر  ہوجائے تو ناپاک اور ناقضِ وضو ہو جاتی ہے، لہٰذا اگر پاخانہ معدہ کے اندر ہے اور انسان کے جسم سے باہر نکل کر ظاہر نہیں ہوا تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، لیکن جب وہ اپنے اصلی قرار گاہ سے نکل کر ظاہر ہو جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔

البحر الرائق میں ہے:

"ظاهر كل حيوان طاهر ولا ينجس إلا بالموت ونجاسة باطنه في ‌معدنه فلا يظهر حكمها كنجاسة باطن المصلي ولو صلى وفي كمه قارورة مضمومة فيها بول لم تجز صلاته؛ لأنه في غير ‌معدنه ومكانه ولو صلى وفي كمه بيضة مذرة قد صار محها دما جازت؛ لأنه في ‌معدنه والشيء ما دام في ‌معدنه لا يعطى له حكم النجاسة".

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، 465/1، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في النصاب رجل صلى وفي كمه قارورة فيها بول لا تجوز الصلاة سواء كانت ممتلئة أو لم تكن؛ لأن هذا ليس في مظانه ومعدنه بخلاف البيضة المذرة؛ لأنه في ‌معدنه ومظانه وعليه الفتوى. كذا في المضمرات".

(كتاب الطهارة، الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الثاني في طهارة ما يستر به العورة وغيره، 62/1، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے: 

"وإن الآدمي طاهر، وما في جوفه من النجاسة معفو عنه لكونه في معدنه".

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 653/1-654، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں