بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ناجائز طریقے سے ملازمت حاصل کرنا اور اس کی تنخواہ کا حکم


سوال

گورنمنٹ کے اداروں میں یہ ضابطہ ہے کہ جو بھی بندہ ادارے میں کم از کم بارہ سال یا اس سے زائد عرصہ ملازمت کرتا ہے تو اس کے انتقال کے بعد اس کے اہل و عیال کو گورنمنٹ کی طرف سے پینشن اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں، اسی طرح اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے کو بھی اس کی جگہ ملازمت پر لگایا جاتا ہے، اور اگر کسی نے بارہ سال سے کم مدت ملازمت کی ہو تو اسے گورنمنٹ کی جانب سے کوئی مراعات نہیں دی جاتی ہیں، سوائے جی پی فنڈ کے، جو اس کی تنخواہ میں سے کاٹ کاٹ کر ديا جاتا ہے، یہ ایک ضابطہ ہے گورنمنٹ کے اداروں کا۔

اب ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کی مدتِ ملازمت 9 سال تھی، ضابطہ کے حساب سے تو یہ نہ گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والے مراعات کا اہل تھا اور نہ اس کا بیٹا اس کا جانشین بن سکتا تھا، لیکن اس شخص کے انتقال کے بعد اس کے گھر والوں نے اس ادارے کے آفس میں کام کرنے والوں سے رابطہ کر کے، مل ملا کر، ناجائز طریقے سے رپورٹ میں 12 سال درج کرادیے، جب اس کی رپورٹ میں 12 سال ملازمت درج ہوگئی تو گورنمنٹ تو یہ رپورٹ ہی دیکھتی ہے، لہٰذا رپورٹ کے حساب سے یہ پینشن کا بھی اہل بنا اور اس کا بیٹا بھی اس کا جانشین بن سکا، لیکن در حقیقت یہ اس کا اہل نہیں تھا، انہوں نے ناجائز طریقہ استعمال کرکے رپورٹ میں 12 سال کی ملازمت ظاہر کی، چنانچہ رپورٹ کے حساب سے اب انہیں گورنمنٹ کی طرف سے مختلف مراعات بھی ملتی ہیں، اور ملازمت میں اس کا بیٹا بھی اس کا جانشین بنا، حالانکہ اس کے علاوہ قابل لوگ ملازمت کے لیے موجود ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ:

۱۔ کیا گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والی مراعات لینا اور اس کا استعمال کرناان کے لیے جائز ہے؟

۲۔ اس کے بیٹے کی ملازمت کا کیا حکم ہے؟ اور ملازمت سے ملنے والی تنخواہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

۱۔ صورتِ مسئولہ میں گورنمنٹ کی طرف سے ملنے والی مراعات چوں کہ جھوٹ اور دھوکہ پر مبنی ہیں، لہٰذا مرحوم کے بیٹے کے لیے ان کا لینا اور استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

۲۔ مرحوم کے بیٹے نے ناجائز ذرائع سے ملازمت حاصل کی ہے، جو کہ سخت گناہ ہے اور اس پر توبہ و استغفار کرنا لازم ہے، تاہم اگر وہ اس کام کا اہل ہے اور وہ اس کام کو دیانت داری سے  انجام دیتا ہے تو اس کے لیے اپنے عمل کے عوض اس ملازمت کی تنخواہ حلال ہوگی، اور اگر وہ اس ملازمت کا اہل نہیں ہے، یا پھر دیانت داری سے وہ کام انجام نہیں کرسکتا ہے تو اس کے لیے یہ تنخواہ حلال نہیں ہوگی (یعنی جس قدر بددیانتی ہوگی، اس قدر تنخواہ حلال نہیں ہوگی)۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا."

( كتاب الإيمان، باب قول النبي صلي الله عليه و سلم: من غشنا فليس منا، ج: 1، ص: 99، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها."

(كتاب الإجارة، الباب الثاني: متي يجب الأجر، ج: 4 ص: 413، ط: المكتبة الرشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں