بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ناجائز قرعہ اندازی کی ایک صورت


سوال

 کچھ افراد نے مل کر ایک کمیٹی تشکیل دی جو کہ 300 افراد پر مشتمل ہے، ایک متعین رقم جمع کرتے ہیں (رضا کارانہ طور پر)،  3سال تک کمیٹی نے چلنا ہے، 3سال کے بعد قرعہ اندازی کے ذریعہ ان 300 افراد میں سے 50 بندوں کو عمرہ کے لیے بھیج دیتے ہیں، باقی 250 بندوں کو اس رقم سے کچھ نہیں ملنا ، تو کیا ایسا  کرنا شرعاً جائز ہے ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مذکورہ صورت  قمار (جوئے) پر مشتمل ہونے کی بنا پر ناجائز ہے، قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے  کی بنیاد  پرہو، اور اس اسکیم میں بھی ممبر نفع اور عمرہ پر جانے کی غرض سے رقم جمع کراتے ہیں، لیکن معاملہ قرعہ اندازی اور اس میں نام آنے پر مشروط ہونے کی وجہ سے یہ لوگ خطرے میں رہتے ہیں کہ نفع ہوگا یا نہیں؛ لہذا یہ اسکیم اور کمیٹی  شرعاً ناجائز ہے، اس کو چلانا اور اس کا حصہ بننا دونوں جائز نہیں ہے۔ نیز لاعلمی میں اگر کوئی شخص اس اسکیم میں حصہ لے چکا ہو تو اس کو  چاہیے کہ فی الفور اس سے علیحدہ ہوجائے، اس لیے کہ یہ  ایک سودی معاہدہ ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"یٰاَ یُّها الَّذیْنَ اٰمَنُوا اِنَّمَا الخَمْرُ وَ المَیْسِرُ وَ الاَنْصَابُ وَ الاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّن عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُم تُفْلِحُوْنَ "(المائدۃ، الآية: 90)

مصنف ابن ابی شیبہ: 

"عن ابن سیرین قال: کل شيءٍ فیه قمار فهو من المیسر."

(کتاب البیوع و الأقضية، ج:4، ص:483، ط:مکتبة الرشد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه.

 وفي الرد: قوله: (بلا عوض) أي بلا شرط عوض فهو على حذف مضاف."

(كتاب الهبة، ج: 5، ص:687، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں