بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناجائز کاموں میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنی میں پیسہ لگانا جائز نہیں


سوال

ایک ملائشین رجسٹرڈ کمپنی ہے جس کی شاخیں پاکستان میں بھی ہیں۔اس کمپنی میں لوگ پیسے جمع کرتے ہیں تو کمپنی ان پیسوں کا ساٹھ فیصد حصہ کرنسی کے کاروبار میں لگاتی ہے، اور باقی ایجوکیشن,ہیلتھ ,ٹرانسپورٹ اور ٹی وی چینل میں لگاتی ہے۔یہ کمپنی پیسے جمع کرنے والوں کو ماہانہ 7% سے 20% تک نفع دیتی ہے جو ہر مہینے فکسڈ نہیں ہوتا ۔اس کے علاوہ اگر آپ کے کہنے پر کوئی کمپنی میں شامل ہو جائے تو کمپنی آپ کو بونس منافع بھی اپنی مرضی سے دیتی ہے۔پیسے جمع کرنا اور نکلوانا بینک کے ذریعے ہوتا ہے۔ پیسے جمع کرنے کے بعد چھ مہینے سے پہلے اگر آپ پیسے نکلواتے ہیں تو کمپنی ٹیکس کاٹتی ہے اور اگر چھ مہینے کے بعد آپ پیسے نکلواتے ہیں تو پھر ٹیکس نہیں کاٹتی۔اس کمپنی کا نام (بی فور یو گلوبل )ہے۔کیا یہ منافع اور اس کمپنی کے ساتھ لین دین حلال ہے یا حرام؟

جواب

صورت مسئولہ میں   نفع کی تعیین کا طریقہ درست نہ ہونے کی بنا  پر ابتدا  سے  یہ معاملہ شرعًا فاسد ہوجاتا ہے، نیز ٹی وی چینل خرافات اور حرام پروگرامات پر مشتمل  ہونے کی وجہ سے  اس میں سرمایہ کاری حرام ہے، مذکورہ کمپنی چونکہ ٹی وی چینلز میں بھی سرمایہ کاری کرتی ہے، اس لئے کمپنی کا کاروبار ناجائزہوجاتا ہے،باقی کرنسی ، ایجوکیشن، ہیلتھ اور ٹرانسپورٹ کے کاموں میں کمپنی کی سرمایہ کاری   کی صورت سوال میں واضح نہیں ہے، اگر کمپنی ان کاموں میں سودی قرضے دیتی ہو، تو کمپنی کے یہ کاروبار بھی شرعًا حرام کے  زمرے میں آئیں گے۔

اس تفصیل کی روشنی میں مذکورہ کمپنی کا کاروبار شرعًا ناجائز ہے، اس کمپنی کے ساتھ لین دین کرنا اور منافع لینا  حرام ہے۔

دیگر لوگوں کو اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا جائز نہیں ، جن لوگوں نے اس کمپنی میں پیسہ لگا یا ہے، ان پر لازم ہے، کہ فورًا اپنا پیسہ کمپنی سے واپس نکالے، اور جو نفع لیا ہے وہ ثواب کی نیت کے بغیر فقراء میں صدقہ کرے،چھ مہینے سے پہلے کمپنی سے اپنا پیسہ واپس لینے والے سے ٹیکس کاٹنا جائز نہیں۔

قران کریم میں ہے:       

وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ(المائدۃ، آیت :2)

الدرالمختار مع ردالمحتار  میں ہے:

"وفي الجلالية كل شرط يوجب جهالة في الربح أو يقطع الشركة فيه يفسدها و إلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوكالة"۔

(فصل فی التخارج/ج:5/ص:648/ط:سعید)

 المبسوط للسرخسی میں ہے:

و إذا استأجر الذمي من المسلم بيتا ليبيع فيه الخمر لم يجز لأنه معصية فلا ينعقد العقد عليه ولا أجر له عندهما۔۔۔وكذلك لو أن ذميا استأجر مسلما يحمل له خمرا فهو على هذا عند أبي يوسف ومحمد رحمهما الله لا يجوزان العقد لأن الخمر يحمل للشرب وهو معصية والاستئجار على المعصية لا تجوز والأصل فيه قوله صلى الله عليه وسلم: "لعن الله في الخمر عشرا" وذكر في الجملة حاملها والمحمولة إليه۔

(ج:16/ص:73/ط:دارالفکر)

وفیہ ایضا:            

بين شدة الحرمة في الربا بقوله : الآخذ والمعطي والكاتب والشاهد فيه سواء أي في المأثم .... والأصل في الكل قوله { ولا تعاونوا على الإثم والعدوان }۔

الاختیار میں ہے:

قوله عليه الصلاة والسلام :' كل قرض جر منفعة فهو ربا "۔

(کتاب البیوع/ج:2/ص:34/ط:دارالکتب العلمیہ)

مزید دیکھیے:

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں