اگر حاجیوں کا قیام نئے منٰی میں ہے تو ان کا مسجد خیف جانا ضروری ہے؟
واضح رہے کہ حاجی کے لیے 8 ذوالحجہ کو مسجدخیف کے قریب قیام کرنا اور اس میں نمازیں پڑھنا مستحب اور مسنون ہے، ضروری نہیں۔ لہذا نئے منٰی میں ہونے کی وجہ سے اگر حاجی مسجد خیف نہ جاسکے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
ملحوظ رہے کہ منی ، عرفات مزدلفہ وغیرہ مشاعر مقدسہ کی حدود شارع کی طرف سے متعین کردہ ہیں جس میں کسی قسم کے ردوبدل کی گنجائش نہیں،البتہ حجاج کرام کے روزافزوں اضافہ کی وجہ سے حجاج کرام کی ایک بڑی تعدادمزدلفہ میں ٹھرنے پر مجبور ہے جسے نیو منی کا نام دیاگیا ہے،منی میں جگہ کی تنگی کے باعث حاجی کا مزدلفہ میں ٹہرنا ایسا ہی جائز ہے جیسا مسجد بھر جانے کی صورت میں نمازیوں کا مسجد سے باہر صف بنانا جائز ہے، لہذا اگر کسی حاجی کو قیام کی جگہ ہی نیو منی میں دی گئی ہو، تو اس قیام کی وجہ سے اس کے حج کی ادائیگی میں فرق نہیں آئے گا۔
اخبار مکہ للازرقی میں ہے:
"عن مجاهد، أنه قال: حج خمسة وسبعون نبيا، كلهم قد طاف بالبيت وصلى في مسجد منى، فإن استطعت أن لا تفوتك الصلاة في مسجد منى فافعل."
(ذكر حج إبراهيم عليه السلام وأذانه بالحج وحج الأنبياء بعده، ج:1، ص:69، ط:دار الأندلس للنشر)
البحر الرائق میں ہے:
"أصحها أنه يخرج إليها بعدما طلعت الشمس لما ثبت من فعله عليه السلام كذلك في حديث جابر الطويل وابن عمر مع اتفاق الرواة أنه صلى الظهر بمنى فالبيتوتة بها سنة والإقامة بها مندوبة كذا في المحيط، ... ويستحب أن ينزل بالقرب من مسجد الخيف."
(كتاب الحج، باب الإحرام، ج:2، ص:361، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100312
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن