حضرت پوچھنا یہ تھا کہ ”نائلہ” نام رکھنا جائز ہے ؟حالانکہ ”اساف“ اور” نائلہ“ یہ دو بتوں کے نام تھے، جن کو چھونے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے زید بن حارث کو دوران طواف منع فرمایا تھا ، جلب منفعت سے دفع مضرت اولی ہے اس قاعدے کے پیش نظر آپ حضرات ”نائلہ“ نام رکھنے سے متعلق کیا فرماتے ہیں؟
نائلہ بعض صحابیات اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہا کی زوجہ کا نام تھا، لہذا یہ نام رکھنا جائز ہے، رہی بات یہ بت کا نام تھا تو رکھنا چاہیے یا نہیں؟توواضح رہے کہ اس نام کے پس منظر سے رسول اللہ ﷺہم سے بڑھ کر آگاہ تھے،اگر یہ نام رکھناممنوع ہوتا تونبی کریم ﷺ اس نام کو تبدیل کرنے کا حکم فرماتے، لہذا جب نبی کریم ﷺ نے نائلہ نام رکھنے سے منع نہیں فرمایا،تو کوئی بھی شخص نائلہ نام رکھنے سے منع کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"سمعت العرباض بن سارية يقول: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، فوعظنا موعظة بليغة وجلت منها القلوب، وذرفت منها العيون، فقيل: يا رسول الله، وعظتنا موعظة مودع فاعهد إلينا بعهد. فقال: "عليكم بتقوى الله، والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا، وسترون من بعدي اختلافا شديدا، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ، وإياكم والأمور المحدثات، فإن كل بدعة ضلالة."
(أبواب السنة،باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين،28/1، ط:دار الرسالة العالمية)
ترجمہ:"عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ سے ڈرو، اور امیر (سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے،تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں) سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے“
الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ہے:
"11800- نائلة بنت الربيع بن قيسبن عامر بن عبادة بن الأبجر، وهو خدرة بن عوف بن الحارث بن الخزرج الأنصارية، أخت عبد الله بنت الربيع البدري.
ذكرها ابن سعد، وقال: أمها فاطمة بنت عمرو بن عطية، من بني مازن بن النجار، وتزوجها أوس بن خالد بن قرط بن قيس بن وهب، من بني مالك بن النجار، فأسلمت وبايعت.
11801- نائلة بنت سعدبن مالك الأنصارية، من بني ساعدة.
ذكرها ابن حبيب في المبايعات.
11802- نائلة بنت سلامةبن وقش، أخت سلمة بن سلامة الماضي ذكره، وأخت أم عمرو بنت سلامة.
ذكرها ابن سعد، وقال: أسلمت وبايعت، قال: وأمها أم عمرو بنت عتيك بن عمرو الجشمية، قال: وكانت تزوجت عبد الله بن سمال- بفتح أوله وتشديد الميم ثم لام، ابن عمرو بن غزية ثم تزوجت قيس بن كعب بن القين السلمي- بفتح السين، فولدت له سهل بن قيس الذي استشهد بأحد.
11803- نائلة بنت عبيد بن الحربن عمرو بن الجعد بن مبذول، من بني مازن بن النجار الأنصارية، من بني ساعدة.
ذكرها ابن حبيب في المبايعات، وقال: أمها رغيبة بنت أوس بن خالد بن الجعد، وتزوجها معمر بن حزم بن زيد بن لوذان، فولدت له عبد الرحمن."
(حرف النون،القسم الأول،331/8، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)
تفسیرِ بغوی میں ہے:
"فإن عثمان رضي الله عنه تزوج نائلة بنت فرافصة، وكانت نصرانية فأسلمت تحته."
(سورۃ البقرۃ،ج:1،ص:195،ط:تالیفات اشرفیة)
آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:
نائلہ نام رکھنا:
سوال:”’’نائلہ‘‘ کیا عربی لفظ ہے؟اس کے کیا معنی ہیں؟میں نے سنا ہے کہ یہ عزیٰ،لات اور نائلہ وغیرہ بتوں کے نام ہیں،جن کی کسی زمانے میں پوجا کی جاتی تھی،لیکن آج کل’’نائلہ‘‘نام لڑکیوں کا بڑے شوق سے رکھا جارہا ہے،کیا شرعاً ’’نائلہ‘‘نام رکھنا جائز ہے؟”
جواب:”جی ہاں!نائلہ عربی لفظ ہے جس کے معنی ہیں:’’عطیہ،سخی،حاصل کرنے والی‘‘یہ بعض صحابیاتؓ کابھی نام تھا اور حضرت عثمانؓ کی اہلیہ کا بھی۔اگر یہ ناجائز ہوتا تو آنحضرتﷺ اس کو تبدیل کرنے کا حکم فرماتے۔“
(ناموں سے متعلق، نائلہ نام رکھنا، 272/8، ط: مکتبہ لدھیانوی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604100179
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن