ریاکاری کے خوف کی وجہ سے نماز بھی چھپ کر پڑھنے کو دل کرتا ہے حتی کہ کسی کے سامنے کوئی اسلامی بات بھی اس وجہ سے نہیں کہتا کہ لوگ کہیں گے بڑا دیندار آدمی ہے اگر کوئی مجھے نیک کام کرتا ہوا دیکھ لے تو بعد میں ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ آدمی کہے گا کہ بڑا نیک آدمی ہے....
واضح رہے کہ ریا کی نیت سے کوئی عمل کرنا اور دوران عمل یا اس کے بعد ریاکے وسوسہ کا آنادونوں میں فرق ہے ،ریاکے وسوسہ کا آنا غیر اختیاری ہے جب کہ ریا اختیاری چیز ہے کہ جس میں فعل وقول کا محرک اللہ تعالی کی رضاجوئی کے بجائے دوسری چیز ہو تي هے،اس لیے اگر انسان کوئی عمل قصدا دوسرے کو دکھانے کی نیت سے کرے تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں ، اس کے معتقدہوجائیں یا اس كي شہرت ہو تویہ مذموم ہے حدیث میں اس کو شرک اصغر قرار دے کر قابل گرفت قرار دیا ہےلیکن اگر انسان کوئی اچھا عمل اللہ کی رضا کی نیت سے کررہا ہواور اس کو ریا کا وسوسہ وخوف لاحق ہو کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں اور اچھا سمجھ رہے ہیں تو یہ غیر اختیاری چیز ہے جو قابل مذمت اور گرفت نہیں ہے۔بعض اہل اللہ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ ریا کا وسوسہ آنا للّٰہیت اور خلوص کی علامت ہے کہ یہ شخص ریاکاری سے بچنے کی کوشش کرتا ہے؛ا س لیے تو اس کو اپنے اعمال میں ریاکاری محسوس ہوتی ہے، ورنہ جس کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول مقصود ہی نہ ہو تو اس کو اس قسم کے خیالات اور وسوسے سے کیوں کر آ سکتے ہیں۔
الزواجر ميں ہے:
"وحدالرياء المذموم ارادة العامل بعبادته غيروجه الله تعالي كا يقصد اطلاع الناس علي عبادته وكماله حتي يحصل له منهم نحو مال او جاه اوثناء."
(الكبيرة الثانية :الشرك الاصغر وهو الرياء(1 39)ط:دارالمعرفة بيروت)
لہذاصورتِ مسئولہ میں ریا کے خوف کی وجہ سے پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی عمل کو چھوڑنا چاہیے، نماز باجماعت ادا کرنا انتہائی تاکیدی سنت ہے جو حکمًا واجب ہے، اس لیے نماز جماعت کے ساتھ ہی ادا کیجیے۔ اللہ کی رضا اور استغفارکے ساتھ اس کی عبادت میں لگے رہیں اور وساوس کی طرف دھیان نہ دیں ،یہ وساوس خود بخود ختم ہوجائیں گے ۔
شامی ميں هے:
"ولايترك لخوف دخول الرياء لانه امرموهوم۔
قوله ولايترك:اي لواراد ان يصلي او يقرأفخاف أن يدخل عليه الرياء فلاينبغي أن يترك لانه أمرموهوم ۔۔۔ وقد سئل العارف المحقق شهاب الدين بن السهروردي عمانصه:ياسيدي ان تركت العمل أخلدت الي البطالة وان عملت داخلني العجب فأئهما اولي،فكتب جوابه:اعمل واستغفر الله من العجب."
(كتاب الصلاة ،فروع في النية (1/ 448)ط:ايچ ايم سعيد
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144408100265
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن