بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی پھوپھی کو شہوت کے ساتھ چھونے کا حکم


سوال

بیوی کی پھوپھی کو شہوت سے چھونا اور اس کے لیے دل میں غلط خیالات لانے سےکیاحرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نا محرم عورت سے ہاتھ  ملانا،  بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اور بے تکلفی کرنا، شہوت کے ساتھ چھونا اور دل میں غلط خیالات لانا  ناجائز  اور گناہ ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نا محرم خواتین کو چھونے پر  بھی شدید وعید سنائی ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں بیوی کی پھوپھی کو شہوت کے ساتھ چھونا اور دل میں غلط خیالات پیدا کرناناجائز اور گناہ ہے،  اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت جائے گی، البتہ بیوی حرام نہیں ہو گی؛ کیوں کہ یہ پھوپھی کے اصول وفروع میں سے نہیں ہے۔

 المعجم الكبير میں ہے: 

 "حدثنا موسى بن هارون، ثنا إسحاق بن راهويه، أنا النضر بن شميل، ثنا شداد بن سعيد الراسبي، قال: سمعت يزيد بن عبد الله بن الشخير يقول: سمعت معقل بن يسار يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لأن يطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمس امرأة لا تحل له»"

( المعجم الكبير ،المؤلف: سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ) ج: 20، صفحہ: 211، رقم الحدیث: 487، ط: مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم أيضا بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي.

(قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ ."

(کتاب النکاح، باب المحرمات، ج: 3، صفحہ:32 و33، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً: 

''فإذا نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ .''

(کتاب الصلاۃ، مطلب في ستر العورة، ج: 1، صفحہ: 406، ط: ایچ، ایم، سعید) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں