بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ناگواری سے والدین کی فرمانبرداری کرنے والے کے لیے ثواب کا حکم


سوال

اگر والدین کی فرمانبرداری خوش دلی سے نہ کی جائے تو کیا اس کا ثواب ملے گا؟ (جب انہیں نہ پتا لگے کہ اولاد کو کام کرنا ناگوار ہے)

جواب

واضح ہو کہ ناگواری دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک صورت یہ ہے کہ دل میں یہ یقین ہے کہ والدین کی فرمانبرداری کرنا ہم پر فرض ہے، البتہ اپنی کمزوری کی وجہ سے ہمیں بوجھ ہورہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دل میں اس بات پر ہی ناگواری ہورہی ہے کہ اللہ نے والدین کی فرمانبرداری کا ہمیں پابند ہی کیوں بنایا ہے؟ پہلی صورت میں ناگواری کے باوجود ان کی بات ماننا نفس کے خلاف اللہ کا حکم ماننا ہے اور یہ ثواب ہے جبکہ دوسری صورت میں اللہ کے دین پر اعتراض ہے جس میں کفر کا اندیشہ ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر والدین کی فرمانبرداری کو حق حکم سجھتے ہوئے ناگواری کے باوجود والدین کی فرمانبرداری کی تو  دو اجر ملیں گے؛  ایک اجر والدین کی فرمانبرداری کا ملے گا اور دوسرا اجر مجاہدۂ نفس یعنی اپنی طبیعت کے خلاف شریعت کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا۔ اور اگر والدین کی فرمانبرداری کے حکم پر ہی ناگواری ہے تو کفر کا اندیشہ ہے، ایسی صورت میں توبہ و استغفار کے ساتھ اپنا تزکیۂ نفس بھی کرے۔

تفسير الرازي میں ہے:

"واعلم أن الراضي بحكم الرسول عليه الصلاة والسلام قد يكون راضيا به في الظاهر دون القلب فبين في هذه الآية انه لا بد من حصول الرضا به في القلب ، واعلم أن ميل القلب ونفرته شيء خارج عن وسع البشر ، فليس المراد من الآية ذلك ، بل المراد منه أن يحصل الجزم واليقين في القلب بأن الذي يحكم به الرسول هو الحق والصدق .

الشرط الثالث : قوله تعالى : { وَيُسَلّمُواْ تَسْلِيماً } واعلم أن من عرف بقلبه كون ذلك الحكم حقا وصدقا قد يتمرد عن قبوله على سبيل العناد أو يتوقف في ذلك القبول ، فبين تعالى أنه كما لا بد في الايمان من حصول ذلك اليقين في القلب . فلا بد أيضا من التسليم معه في الظاهر ، فقوله : { ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِى أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مّمَّا قَضَيْتَ } المراد به الانقياد في الباطن ، وقوله : { وَيُسَلّمُواْ تَسْلِيماً } المراد منه الانقياد في الظاهر والله أعلم ."

(سورة النساء، آية 65، ج10، ص128، دار إحياء الراث العربي)

فتح الباري لابن حجر  میں ہے :

"فأما مجاهدة النفس فعلى تعلم أمور الدين ثم على العمل بها ثم على تعليمها."

(كتاب الجهاد، ج6، ص3، دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100110

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں