بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نفسیاتی آدمی کے طلاق کا حکم


سوال

میرے بیٹے نے اپنی بیوی کو جھگڑے کے دوران تقریباً9 سے 10 بار یہ الفاظ کہے کہ "میں تمیہیں طلاق دے رہاہوں "دہرایا ،اس وقت میرے دوسرے بیٹے نے بھی یہ سنا ،میرے بیٹے (جس نے طلاق دیاہے) وہ پچھلے 5 یا 6 سال سے ذھنی مریض ہے اور نفسیاتی آدمی بھی ہے،اب سوال یہ ہے کہ میرے بیٹے نے جو طلاقیں دی ہیں وہ واقع ہوگی یا نہیں ؟اگر واقع ہوتی ہے توکتنی طلاقیں واقع ہوگی ،راہ نمائی فرمائیں،کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لڑکی نفاس کی حالت میں ہے تواس پر طلاق واقع نہیں ہوتی ،آیا یہ بات شرعاًصحیح ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر طلاق دیتے وقت سائلہ کامذکورہ  بیٹا  ہوش وحواس میں تھا اور اس کو  بیوی وغیرہ میں تمیز تھی،  اچھے برے کی پہچان تھی  ،اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کا علم تھا تو اس صورت میں شوہر کے مذکورہ الفاظ "میں تمہیں طلاق دے رہاہوں" سے تین  طلاقیں واقع ہوگئیں  ،اور عورت اپنے شوہر  پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے  ، نکاح ختم ہوگیا ہے ،اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتابیوی اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،البتہ مطلقہ اپنی عدت گزار کر اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور اس دوسرے شوہر سے صحبت( جسمانی تعلقات) ہوجائے اس کے بعد دہ دوسرا شوہراسے طلاق دیدے ،یا بیوی طلاق لےلے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر (سائلہ کا بیٹا ) کے ساتھ دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ۔

واضح رہے کہ حیض نفاس کی حالت میں بھی شرعاًطلاق واقع ہوجاتی ہے۔

 "(والبدعي) من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعا ويستحب له أن يراجعها والأصح أن الرجعة واجبة هكذا في الكافي."

(الطلاق البدعي،ج:1،ص:349،ط:دارالفکر)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص: 187، ط:ایچ ایم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ وفیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ،فصل فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ ،ج:1،ص:473،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام : أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني : أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث : من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافًا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش".

(رد المحتار، كتاب الطلاق 3/244 ،ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں