بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

’’افضل الجہاد اپنے نفس سے جہاد کرنا ہے‘‘ کی حقیقت کیا ہے؟


سوال

۱۔ افضل الجہاد اپنے نفس سے جھاد کرناہے، اس روایت کی کیا حقیقت ہے؟ ۲۔  اور کس درجے کی حدیث میں آتی ہے؟

جواب

۱۔ واضح رہے کہ افضل الجہاد سے متعلق مختلف روایات وارد ہوئی ہیں، بخاری شریف کی ایک روایت میں حجِ مبرور کو افضل الجہاد کہا گیا ہے، سنن ابی داؤد کی روایت میں ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنے کو افضل الجہاد کہا گیا ہے، اور ایک روایت میں اس شخص کے جہاد کو افضل کہا گیا ہے جو اپنی جان و مال سے جہاد کرے، اور جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ ’’مجاہد تو وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے‘‘، یہ تمام روایات صحیح کے درجے میں ہیں، غرض یہ کہ افضل الجہاد کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدداحادیث مروی ہیں، اور نفس سے جہاد کا افضل ہونااس اعتبار سے ہے کہ قتال بالسیف تو مخصوص اوقات میں ہوتے ہیں جب کہ مجاہدہ نفس میں انسان  ہر لمحہ محتاط رہ کر شیطان سے جہاد کرتا ہے، یعنی اس کے وساوس اور شک و شبہات سے اپنے آپ کو بچاتا ہے، شیطان گناہوں کی تلقین کرتا ہے تو بندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچا کر نیکیوں کی طرف لاتا ہے، یہ نفس کا مجاہدہ کہلاتا ہے، جب بندہ اس جہاد میں پختہ ہوجاتا ہے تو پھر اس کے لیے اللہ کے دشمنوں سے جہاد کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

بخاری شریف کی حدیث میں حج کو افضل الجہاد کہا گیا ہے، یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے، اور اس میں حج کو افضل الجہاد عورتوں کے لیے کہا گیا ہے، اس لیے کہ عورتیں جہاد میں نہیں جاتیں تو ان کے لیے جہاد کا ثواب حج میں رکھا گیا ہے اور حج میں بھی نفس پر کافی مشقتیں ہوتی ہیں، نفسانی اور شیطانی خواہشوں سے خود کو بچانا ہوتا ہے جو کہ نفس پر کافی سخت ہوتا ہے، اس وجہ سے بھی حج کو افضل الجہاد کہا گیا ہے، سنن ابی داؤد کی روایت میں ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنے کو افضل الجہاد اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں بھی اصل جہاد بندہ اپنی نفس سے ہی کرتا ہے، اس لیے کہ عموماً آدمی ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنے سے کتراتا ہے کہ کہیں اس کے ظلم کی آگ میں خود نہ لپٹ جائے، لیکن اپنے نفس کی خواہش کے خلاف وہ ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہہ کر اسے نصیحت کرتا ہے، جب کہ اس میں اس کی جان کو خطرہ ہوتا لیکن فائدہ پوری رعایا کا ہوتا، تو اس لحاظ سے اس کو افضل الجہاد کہا گیا ہے، اور دوسری روایت جس میں اس شخص کے جہاد کو افضل کہا گیا ہے جو اپنی جان و مال سے جہاد کرے، اس لیے کہ جان و مال دونوں انسان کو عزیز ہوتے ہیں اور ان کو خرچ کرنا نفس پر گراں ہوتا ہے، اس اعتبار سے اس کو افضل الجہاد کہا گیا ہے۔

۲۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے’’المجاهد من ‌جاهد ‌نفسه‘‘حدیث کو نقل کرکے اس کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’یہ حدیث حسن صحیح  ہے‘‘، اور اس حدیث کے تمام راوی یعنی احمد بن محمد، عبد اللہ بن مبارک، حیوہ بن شریح، ابو ہانی الخولانی اور عمرو بن مالک الجنبی سب ثقہ راوی ہیں، رحمہم اللہ۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها أنها قالت: «يا رسول الله، نرى الجهاد أفضل العمل، أفلا نجاهد؟ قال: لا، لكن ‌أفضل ‌الجهاد حج مبرور»."

(كتاب الجهاد، باب فضل الجهاد والسير، ج: 4، ص: 15، ط: دار طوق النجاة)

عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے:

"وفي رواية ابن ماجه: (عن عائشة رضي الله تعالى عنها، قلت: يا رسول الله! هل على النساء جهاد؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم: عليهن جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة). وعنده أيضا عن أم سلمة رضي الله تعالى عنها، قال النبي صلى الله عليه وسلم: (الحج جهاد كل ضعيف). وفي رواية النسائي رحمه الله تعالى، بسند لا بأس به عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه: (جهاد الكبير والصغير والضعيف والمرأة: الحج والعمرة) . وإنما قيل للحج جهاد لأنه يجاهد في نفسه بالكف عن شهواتها والشيطان ودفع المشركين عن البيت باجتماع المسلمين إليه من كل ناحية."

(كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، ج: 9، ص: 135، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتح الباری میں ہے:

"وقد رواه جرير عن صهيب عند النسائي بلفظ فإني لا أرى عملا في القرآن أفضل من الجهاد قوله لكن أفضل الجهاد اختلف في ضبط لكن فالأكثر بضم الكاف خطاب للنسوة قال القابسي وهو الذي تميل إليه نفسي وفي رواية الحموي لكن بكسر الكاف وزيادة ألف قبلها بلفظ الاستدراك والأول أكثر فائدة لأنه يشتمل على إثبات فضل الحج وعلى جواب سؤالها عن الجهاد وسماه جهادا لما فيه من مجاهدة النفس."

(كتاب الحج، باب فضل الحج المبرور، ج: 3، ص: 382، ط: دار المعرفة بيروت)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أفضل ‌الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر، أو أمير جائر»."

(كتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، ج: 4، ص: 124، ط: المكتبة العصرية بيروت)

وفيه أيضاً:

"عن عبد الله بن حبشي الخثعمي، أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل: أي الأعمال أفضل؟ قال: «طول القيام»، قيل: فأي الصدقة أفضل؟ قال: «جهد المقل»، قيل: فأي الهجرة أفضل؟ قال: «من هجر ما حرم الله عليه»، قيل: فأي الجهاد أفضل؟ قال: «من جاهد المشركين بماله ونفسه»، قيل: فأي القتل أشرف؟ قال: «من أهريق دمه، وعقر جواده»."

(كتاب الصلاة، باب طول القيام، ج: 2، ص: 69، ط: المكتبة العصرية بيروت)

مرقات المفاتیح میں ہے:

"وإنما كان أفضل ; لأنه من الجهاد الأكبر ; وهو مخالفة النفس ; لأنها تتبرأ من هذا القول، وتبعد من الدخول في هذا الهول مع ما فيه من النصيحة للراعي والرعية."

(كتاب الإمارة والقضاء، ج: 6، ص: 2412، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"قيل: فأي الجهاد أفضل؟ قال: من جاهد المشركين بماله ونفسه) : ولتوقف هذا الجهاد على مجاهدة النفس ورد: أفضل الجهاد أن يجاهد الرجل نفسه وهواه، رواه ابن النجاري، عن أبي ذر ولهذا سمي جهادا أكبر، ولا ينافيه ما ورد: أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر على ما رواه أحمد وغيره ; لأنه أشق على النفس."

(كتاب الجهاد، ج: 6، ص: 2482، ط: دار الفكر بيروت)

جامع ترمذی میں ہے:

"حدثنا أحمد بن محمد قال: أخبرنا عبد الله بن المبارك قال: أخبرنا حيوة بن شريح، قال: أخبرني أبو هانئ الخولاني، أن عمرو بن مالك الجنبي، أخبره، أنه سمع فضالة بن عبيد، يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «كل ميت يختم على عمله إلا الذي مات مرابطا في سبيل الله فإنه ينمى له عمله إلى يوم القيامة، ويأمن من فتنة القبر»، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «المجاهد من ‌جاهد ‌نفسه»: وفي الباب عن عقبة بن عامر، وجابر وحديث فضالة حديث حسن صحيح."

(أبواب فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل من مات مرابطا، ج: 4، ص: 165، ط: مكتبة مصطفى البابي الحلبي)

فتح الباری میں ہے:

"والمراد بالمجاهدة كف النفس عن إرادتها من الشغل بغير العبادة وبهذا تظهر مناسبة الترجمة لحديث الباب وقال بن بطال جهاد المرء نفسه هو الجهاد الأكمل قال الله تعالى وأما من خاف مقام ربه ونهى النفس عن الهوى الآية ويقع بمنع النفس عن المعاصي وبمنعها من الشبهات وبمنعها من الإكثار من الشهوات المباحة لتتوفر لها في الآخرة... قال القشيري أصل مجاهدة النفس فطمها عن المألوفات وحملها على غير هواها وللنفس صفتان انهماك في الشهوات وامتناع عن الطاعات فالمجاهدة تقع بحسب ذلك قال بعض الأئمة جهاد النفس داخل في جهاد العدو فإن الأعداء ثلاثة رأسهم الشيطان ثم النفس لأنها تدعو إلى اللذات المفضية بصاحبها إلى الوقوع في الحرام الذي يسخط الرب والشيطان هو المعين لها على ذلك ويزينه لها فمن خالف هوى نفسه قمع شيطانه فمجاهدته نفسه حملها على اتباع أوامر الله واجتناب نواهيه وإذا قوي العبد على ذلك سهل عليه جهاد أعداء الدين فالأول الجهاد الباطن والثاني الجهاد الظاهر وجهاد النفس أربع مراتب حملها على تعلم أمور الدين ثم حملها على العمل بذلك ثم حملها على تعليم من لا يعلم ثم الدعاء إلى توحيد الله وقتال من خالف دينه وجحد نعمه وأقوى المعين على جهاد النفس جهاد الشيطان بدفع ما يلقي إليه من الشبهة والشك ثم تحسين ما نهي عنه من المحرمات ثم ما يفضي الإكثار منه إلى الوقوع في الشبهات وتمام ذلك من المجاهدة أن يكون متيقظا لنفسه في جميع أحواله فإنه متى غفل عن ذلك استهواه شيطانه ونفسه إلى الوقوع في المنهيات وبالله التوفيق."

(قوله باب من جاهد نفسه في طاعة الله عز وجل، ج: 11، ص: 338، ط: دار المعرفة بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100593

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں