میرے بڑے بھائی نے میری ماں کی نافرمانی کی اور ماں کو گھر سے نکال دیا، میری ماں میرے ساتھ رہتی ہے، اس نے مشورہ دیا کہ اگر وہ مر جائے تو اسے (اس کے بیٹے) اور میرے والد (شوہر) کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہ دیں۔ اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ کیا ہم کسی خونی رشتہ دار کو جنازے میں شرکت سے روک سکتے ہیں اگر کسی شخص نے موت سے پہلے ہمیں خاص طور پر مشورہ دیا ہو؟
واضح رہے کہ اولاد پر ان تمام امور میں والدین کی اطاعت فرض ہے جن کی اطاعت میں شریعت کے کسی حکم سے ٹکراؤ لازم نہ آئے، نیز والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا بھی شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی سخت حرام اورکبیرہ گناہ ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے، اور والدین کی نافرمانی، ان کے ساتھ بدکلامی کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بہت وعیدیں آئی ہیں۔لہذا سائل کے بھائی کو چاہیے کہ وہ اپنی اس بدسلوکی سے معافی مانگے اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک والا معاملہ کرے۔
باقی اس کی وجہ سےسائل کی والدہ کا نافرمان بیٹے اور شوہر کو اپنے جنازے میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دینا یا وصیت کرنا اور سائل کے لیے اس مشورے پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، نافرمان بیٹا اور شوہر جنازے میں شریک ہو سکتے ہیں کسی کو منع کرنے کا حق نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]
ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔ ( ازبیان القرآن)
حدیث شریف میں ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
(مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، ج: ۳، صفحہ: ۱۳۸۲، المكتب الإسلامي - بيروت)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)
فتاوی شامی میں ہے:
"أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئا معينا فهي باطلة."
(کتاب الوصایا، ج: 6، صفحہ: 666، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101458
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن