بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نفقہ کی مقدار اور شوہر کے زیادہ نفقہ نہ دینے کی وجہ سے بیوی کی نافرمانی کا حکم


سوال

میری شادی کو 28 سال ہوگئے ہیں، دو گھر کا کرایہ تقریباً 32 ہزار اور 15 ہزار اپنی بیوی کو دیتا تھا، لیکن سارا ختم ہوجاتا تھا، اور مزید بھی مانگتی تھی، میں ان سے کہتا تھا سارا کہاں چلا گیا، گھر میں 5 افراد ہیں ان کے لیے یہ کافی ہے، لیکن پھر بھی وہ مزید مانگتی ہے، اس پر ہمارا جھگڑا ہوتا رہتا ہے، اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سارے بچے ماں کے ساتھ دیتے ہیں، وہ میرے پاس تک نہیں سوتی، صبح بغیر ناشتہ کے میں جاتا ہوں، کبھی بلاؤں تو نہیں آتی، سارے کام میں خود کررہا ہوں، میری 20 ہزار کی نوکری ہے، 15 ان کو دیتا ہوں، 5 ہزار خود رکھتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا 47 ہزار نفقہ کافی نہیں ہے؟ میرے پاس اس سے زیادہ کچھ ہے ہی نہیں جو ان کو دوں۔

بیوی کا یہ رویہ جو میرے ساتھ ہے اس کا کیا حکم ہے؟ تفصیل کے ساتھ بتائیں۔ 

جواب

واضح رہے کہ بیوی پر شوہر کی ہر  جائز بات کو اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق ماننا ضروری ہے ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

"ولو أمرها أن تنقل من جبل أصفر إلى جبل أسود ومن جبل أسود إلى جبل أبيض كان ينبغي لها أن تفعله"۔

(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ص:283، ج:2، ط:قدیمی)

ترجمہ:اگر اس کا شوہر اس کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھاکر سفید پہاڑ پر لے جائے تو اس عورت کے لیے یہی لائق ہے کہ وہ اپنے شوہر کا یہ حکم بجا لائے۔

ایک اور حدیث میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أي النساء خير؟ قال: «التي تسره إذا نظر وتطيعه إذا أمر ولا تخالفه في نفسها ولا مالها بما يكره"۔

(مشکاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ص:283، ج:2، ط:قدیمی)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی بیوی بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے، اور جب شوہر اس کوئی حکم دے تو اس کو بجا لائے (بشرط یہ کہ وہ حکم خلافِ شرع نہ ہو) اور اپنی ذات اور اپنے مال میں اس کے خلاف کوئی ایسی بات نہ کرے جس کو وہ پسند نہ کرتا ہو۔ 

نیز  جب تک بیوی شوہر کے گھر ہے اس وقت   تک بیوی کے کھانے پینے،رہائش اور دیگر ضروریات  کا انتظام شوہر پر لازم ہے اور نان و نفقہ سے مقصود بھی یہی ہے کہ شوہر بیوی کی ضروریات  پوری کرے،نقدی کی صورت میں رقم دینا شوہر پر لازم و  ضروری نہیں  ہے، اور اس نان و نفقہ کی شرعاً کوئی خاص مقدار مقرر نہیں ہے،  بلکہ میاں بیوی اگردونوں مال دار  ہیں تو اسی حساب سے نفقہ دینا ہوگا، دونوں تنگ دست ہیں تو اپنی وسعت کے مطابق ادا کرنا ہوگا، اور اگر ایک مال دار دوسرا تنگ دست ہے تو متوسط طبقہ کے مطابق نفقہ دینا ہوگا۔ 

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی  کل آمدنی 52 ہزار ہے اور اس میں سے 47 ہزار وہ گھر کی ضروریات اور بیوی کے نان و نفقہ کے لیے دیتا ہے اور اس سے زیادہ دینے کی استطاعت نہیں ہے تو شرعاً اس پر مزید دینا لازم نہیں ہے، بیوی کو چاہیے کہ وہ مزید رقم کا مطالبہ نہ کرے بلکہ کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے اسی 47  ہزار میں ہی گزر بسر کرے۔ 

سائل کی  بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ شوہر (سائل) سے الگ تھلگ سوئے اور اس کی خدمت کھانے وغیرہ کا انتظام نہ کرے، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ شوہر کی جائز  ہدایت پر عمل کرے۔ 

            مذکورہ  مسئلہ کا حل یہ ہے کہ اولاً    بیوی کو سمجھایا جائے، اگر وہ سمجھ جائے تو ٹھیک ورنہ شوہر دونوں خاندان کے معزز اور سمجھ دار بزرگ افراد کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"‌‌باب النفقة هي لغة: ما ينفقه الإنسان على عياله وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام"۔

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ص:572، ج:3، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في البحر: واتفقوا على وجوب نفقة الموسرين إذا كانا موسرين، وعلى نفقة المعسرين إذا كانا معسرين وإنما الاختلاف فيما إذا كان أحدهما موسرا والآخر معسرا، فعلى ظاهر الرواية الاعتبار لحال الرجل، فإن كان موسرا وهي معسرة فعليه نفقة الموسرين، وفي عكسه نفقة المعسرين. وأما على المفتى به فتجب نفقة الوسط في المسألتين وهو فوق نفقة المعسرة ودون نفقة الموسرة"۔

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ص:574، ج:3، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحقه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به،

وفي الرد: (قوله في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به ط"۔

(باب القسم، ص:208، ج:3، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں