1.میرے بھائی بے روزگار ہے ،اور گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہے، جس کی وجہ سے میں نے اپنے شوہر سے اجازت لی کہ میں ان کے گھر کھانا بھیجاکروں گی ،تو میرے شوہر نے اجازت دی ،اور میں نے کہا تھا کہ ہم بھائی کونہیں دے رہےہیں ،بلکہ اللہ کو دے رہے ہیں ،یعنی اللہ کےلیے دے رہے ہیں ،میرے شوہر سمیت سات بھائی ہیں ،ان میں سے کسی بھی بھائی نے اپنے والد کو مستقل اپنے ساتھ نہیں رکھا ہوا ہے ،جس کی وجہ وہ دربدر ہے ،اور پل کے نیچے رہتا ہے ،اب میرا شوہر کہہ رہا ہے کہ میرا والد پل کے نیچے رہتا ہے ،اس وجہ سے ہمیں اس کھانے کا کوئی ثواب نہیں ملے گا بلکہ عذاب ہوگا ،تو کیا میرے شوہر کا یہ جملہ کہنا صحیح ہے یا نہیں ؟اور اس کھانے کا ہمیں اجر ملے گا یا نہیں ؟
2.میری شادی کو بیس سال ہوئے ہیں ،اس عرصہ میں اس نے کبھی کوئی صدقہ وخیرات نہیں کیا ،تو اس کو اس بارے میں ترغیب دی جائے ۔
3.اسی طرح نماز ،روزہ اور دین کے ہر معاملے میں اگر کوئی اس کو نصیحت کرے، تو کہتا ہے کہ جہنم میں جاؤ ،مجھے مت سکھاؤ ،تو کیا یہ الفاظ کہنا صحیح ہے یا نہیں ؟
1.والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا شرعاً ضروری ہے، ان کی نافرمانی اور ایذا رسانی حرام اورکبیرہ گناہ ہے، قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کی بڑی تاکید آئی ہے، خصوصاًوالد کو حدیث میں جنت کا درمیانہ دروازہ فرمایا گیاہے،ا ورایک حدیث میں فرمایاگیاہے کہ رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے،اور والدین کی نافرمانی، ان کے ساتھ بدسلوکی کے ساتھ پیش آنے، اور والدین کو ستانے کی بھی بہت وعیدیں آئی ہیں ،لہٰذاصورتِ مسئولہ میں سائلہ کےشوہراور اس کے دیوروں پراپنے والد کی کفالت اور ان کے ساتھ حسن ِ سلوک کا معاملہ کرنا ضروری ہے ،اور اس کےبیٹوں پر اس کی رہائش اور نان ونفقہ کا انتظام کرنا بھی لازم ہے،اوریہ ذمہ داری ہر ایک پر ہے،جونہیں کرےوہ عنداللہ جوابدہ ہے،الغرض سائلہ کے شوہر کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے والد کی کفالت کرے اگر وہ والد کی کفالت کرتے ہوئے مزید اپنے سالے کا خرچہ اٹھاسکتاہوتو اچھی بات ہے،اوراگر دونوں کا نہیں اٹھا سکتا تو پہلے والد کی کفالت کرکے اپنا فریضہ ادا کرے ، جس کے بارے میں اللہ پوچھیں گے،نیز یہ کہ بےسہارہ والد کانان و نفقہ اٹھاناذمہ داری ادا کرنےساتھ ساتھ اس میں صدقہ کا ثواب بھی ہے۔
2.حدیث میں ہے کہ صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بجھا دیتا ہے، اور بری موت کو دور کر دیتا ہے،ایک اور حدیث میں ہے کہ سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا ،ان میں سے ایک وہ شخص بھی ہوگا جو چھپا کر صدقہ دے ،یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔
3.سائلہ کے شوہر کا ہر نصیحت کے جواب میں یہ کہنا "جہنم میں جاؤ ،مجھے مت سکھاؤ "،اس جملہ سے اگرچہ وہ کافر نہیں ہوگا، لیکن ایسے جملوں کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے اور اس پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿الإسراء: ٢٣﴾وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ."﴿الإسراء: ٢٤﴾
ترجمہ:”اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو،اور ان دونوں کے لیے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اللہ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔“
شعب الایمان میں ہے:
عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من أصبح مُطيعًا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من الجنّة، وإن كان واحدًا فواحدًا و من أمسى عاصيًا لله في والديه أصبح له بابان مفتوحان من النّار، إن كان واحدًا فواحدًا" قال الرجل: وإن ظلماه؟ قال: "وإن ظلماه، وإن ظلماه، وإن ظلماه".
(بر الوالدين ، فصل ليس شيء احط للذنوب من بر الوالدين ، ج:6، ص:206، ط:دار الكتب العلمية)
ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔"
سنن ابن ماجه میں ہے:
"عن أبي الدرداء، سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: الوالد أوسط أبواب الجنة، فأضع ذلك الباب أو احفظه."
(أول أبواب الآداب ، باب بر الولد والإحسان إلى البنات ، ص:774، ط:دار الصديق)
ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔"
سنن الترمذی میں ہے:
"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:رضى الرب في رضى الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد."
(أبواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين، ج:3، ص:464،ط:دار الغرب الإسلامي)
ترجمہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے."
وفیہ ایضاً:
"عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الصدقة لتطفئ غضب الرب وتدفع ميتة السوء."
(أبواب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ،باب ما جاء في فضل الصدقة، ج:2،ص:44، ط:دار الغرب الإسلامي)
صحیح مسلم میں ہے :
"أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: « سبعة يظلهم الله فى ظله يوم لا ظل إلا ظله: الإمام العادل، وشاب نشأ بعبادة الله، ورجل قلبه معلق فى المساجد، ورجلان تحابا فى الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه، ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال، فقال: إنى أخاف الله، ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لاتعلم يمينه ما تنفق شماله، ورجل ذكر الله خالياً ففاضت عيناه. "
(كتاب الزكاة،باب فضل اخفاء الصدقۃ ،ج:2،ص:715، ط:دار إحياء التراث العربي)
الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:
"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب.
(قوله: ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر."
(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"روى الطحاوي عن أصحابنا لا يخرج الرجل من الإيمان إلا جحود ما أدخله فيه ثم ما تيقن أنه ردة يحكم بها وما يشك أنه ردة لا يحكم بها إذ الإسلام الثابت لا يزول بالشك مع أن الإسلام يعلو وينبغي للعالم إذا رفع إليه هذا أن لا يبادر بتكفير أهل الإسلام مع أنه يقضي بصحة إسلام المكره. أقول: قدمت هذا ليصير ميزانا فيما نقلته في هذا الفصل من المسائل، فإنه قد ذكر في بعضها إنه كفر مع أنه لا يكفر على قياس هذه المقدمة فليتأمل اهـ ما في جامع الفصولين وفي الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت رواية أنه لا يكفر اهـ وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اهـ والذي تحرر أنه لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اهـ كلام البحر باختصار."
(کتاب الجهاد ، باب المرتد، ج: 4، ص : 224، ط : سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101401
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن