بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نفقہ نہ دینےکی وجہ سے عورت خلع لے سکتی ہے


سوال

اگرشوہرنےدوسری شادی کرلی ہو، اور پہلی بیوی کو پوچھتابھی نہ ہو،اورتین سالوں سےخرچہ بھی نہیں دیتاہو،اورطلاق بھی نہیں دیتاہو،توکیاایسی عورت کےلیےخلع لیناجائزہے؟

جواب

واضح رہےکہ جس آدمی کی ایک سےزائدبیویاں ہوں ،توشرعاً اُس شوہرپراُن بیویوں کےدرمیان عدل اورانصاف کرنالازم ہے، ایک حدیث میں اللہ کےنبی علیہ السلام نےفرمایاکہ جس آدمی کی دوبیویاں ہوں ،اوروہ اُن میں سےایک کی طرف زیادہ مائل ہوتاہو،توایساشخص قیامت میں اس حالت میں پیش ہوگاکہ اس کےبدن  کاایک حصہ فالج زدہ ہوگا؛اس لیےبیویوں کےدرمیان عدل وانصاف کرناچاہیے،تاہم اگرطبعی میلان کسی ایک کی طرف ہو،لیکن شب باشی دونوں بیویوں کےدرمیان برابرکرتاہو،توانشاء اللہ امیدہےکہ اس پرمؤاخذہ نہیں ہوگا۔

نیزبیویوں کوبھی شوہرکےساتھ بہتربرتاؤرکھنا،اورشوہرکےساتھ ہرجائزکام میں تعاون کرنا،اورہرصورت میں گھرکوپرامن رکھنا،اورآپس میں پیارومحبت کی فضاء قائم کرناضروری ہے،اوربلاضرورت کےطلاق کےمطالبہ سےاجتناب کرناضروری ہےکہ حضورعلیہ السلام نےفرمایا:جوعورت بلاوجہ شوہرسےطلاق کامطالبہ کرے،ایسی عورت پرجنت کی خوشبوحرام ہے،اوراگرکوئی ناچاقی ہوجائے،توسب سےپہلےخودہی حل کرنےکی  کوشش کرنی چاہیے،اوراگرخودسےباہمی طورپرمسائل حل نہ ہو،توقوم کےبااثرافرادکےذریعہ سےمسائل کےحل کی تلاش کرنی چاہیے،اوراگریہ تدبیربھی کارآمدنہ ہو،اورآپس کےحقوق پامال ہورہےہوں،توپھرطلاق  کی طرف جایاجاسکتاہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں سائلہ کوچاہیےکہ مصالحت کی کوئی صورت تلاش کریں،اوراگرایسی کوئی صورت نہ ہو،اورواقعۃً سائلہ کو بنیادی حقوق نان ،نفقہ وغیرہ نہیں مل رہےہوں،اورشوہرطلاق دینےپرراضی نہ ہو،توسائلہ خلع کی طرف جاسکتی ہے،تاہم خلع کےلیےشوہرکی رضامندی ضروری ہے؛لہذااگرشوہرکی رضامندی نہ ہو،اورکسی ادارہ کےذریعہ خلع کےپیپرلیےگئے،تووہ خلع شرعاًمعتبرنہیں۔

بذل المجہودمیں ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: أيما) لفظ ما زائدة (امرأة سألت زوجها طلاقا) سواء كانت الطلاق بعوض أو بغير عوض (في غير ما) لفظ ما زائدة (بأس) أي في غير شدة يلجئها إلى المفارقة (فحرام) أي ممنوع (عليها) أي عنها (رائحة الجنة) أي أول مرة."

(أول كتاب الطلاق،باب في الخلع،٢٥٣/٨،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

تبیین الحقائق میں ہے:

"(البكر كالثيب والجديدة كالقديمة والمسلمة كالكتابية فيه) أي في القسم لقوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة أو ما ملكت أيمانكم ذلك أدنى ألا تعولوا} [النساء: 3] معناه أن لا تجوروا وقوله تعالى {ولن تستطيعوا أن تعدلوا بين النساء ولو حرصتم فلا تميلوا كل الميل} [النساء: 129].وقوله - عليه الصلاة والسلام - «من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل» أي مفلوج رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه وابن حنبل، وعن عائشة - رضي الله عنها - أنها قالت «كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقسم فيعدل ويقول اللهم هذا قسمي فيما أملك فلا تلمني فيما تملك ولا أملك» يعني زيادة المحبة. رواه أبو داود والنسائي وابن ماجه والترمذي، وقال فيه الإرسال أصح. وهذه النصوص عامة في النساء فيسوي بين الجديدة والقديمة والبكر والثيب والصحيحة والمريضة والرتقاء والمجنونة التي لا يخاف منها والحائض والنفساء والحامل والحائل والصغيرة التي يمكن وطؤها والمحرمة والمولى منها والمظاهر منها."

(كتاب النكاح،باب القسم،179/2،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم."

(كتاب النكاح،فصل المعاشرة بالمعروف، ٣٣٤/٢، ط:دارالكتب العلمية)

الدرالمختارمیں ہے:

"(هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس، وكل محبوس لمنفعة غيره يلزمه نفقته....(بقدر حالهما) به يفتى،ويخاطب بقدر وسعه والباقي دين إلى الميسرة، ولو موسرا وهي فقيرة لا يلزمه أن يطعمها مما يأكل بل يندب."

(كتاب الطلاق،باب النفقة،٥٧٢/٣،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں